اسلام آباد (ویب ڈیسک)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں مفادات کے ٹکراؤ کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں ایکوائر زمینوں کے متاثرین کو معاوضہ دینے کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے معاون خصوصی علی اعوان کو ہدایت کی کہ متاثرین کو معاوضہ دینے کے معاملات کو ایگزیکٹو دیکھے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے سے اسلام آباد کے متاثرین کی تفصیلی رپورٹ طلب کرلی اور حکم امتناع کے باوجود پلاٹس کی الاٹمنٹ جاری رہنے پر اظہار برہمی بھی کیا۔

عدالت نے معاون خصوصی سے کہا کہ ہم نے حکم امتناع دیا پھر بھی پلاٹ کیوں الاٹ کئے گئے؟، جب تک آخری متاثرہ شخص کو معاوضہ نہیں مل جاتا تب تک کسی کو کوئی پلاٹ الاٹ نہیں ہوگا، نیب کے وعدہ معاف گواہ بننے والوں کو بھی پلاٹ الاٹ کردیے گئے، جتنی ناانصافی یہاں ہے کسی اور جگہ اتنی نہیں، یہاں پر قبضے ہو رہے ہیں کرائم بڑھ رہا ہے، مفادات کے ٹکراؤ کے علاوہ اسلام آباد میں ہے ہی کچھ نہیں، ریونیو آفیسر خود پلاٹ خرید رہا ہوتا ہےاگر اس کا اپنا مفاد نہ ہو تو وہ اچھے طریقے سے کام کرے گا۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 18 ستمبر تک ملتوی کردی۔