لکھنو (ویب ڈیسک)
خصو صی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے پریذائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے کیس کا فیصلہ سنایا
بابری مسجدگرانے کا واقعہ اچانک ہوا،اس کے لیے پہلے سے کسی منصوبہ بندی کے ثبوت نہیں ملے،عدالت
بابری مسجد انہدام کیس میں لکھنو میں قائم خصوصی عدالت نے ناکافی شواہد کی بنا پر کیس میں نامزد بھارتی جنتا پارٹی(بی جے پی)کے سینئر رہنما ایل کے ایڈوانی سمیت32 ملزمان کو بری کر دیا۔بھارتی شہر لکھنو میں قائم خصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے 1992 میں شہید کی گئی بابری مسجد کے انہدام کیس کا فیصلہ پریذائیڈنگ آفیسر کی حیثیت سے سنایا۔کیس کے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ بابری مسجدگرانے کا واقعہ اچانک ہوا،اس کے لیے پہلے سے کسی منصوبہ بندی کے ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں، کیس میں ایل کے ایڈوانی، اوما بھارتی، مرلی منوہر جوشی اور سوامی چمیا نند سمیت 32 ملزمان کونامزد کیا گیا تھا ۔عدالت کی جانب سے کیس کی سماعت 16 ستمبر کو مکمل ہوئی تھی جس کے بعد 30 ستمبر 2020کو فیصلہ سنانے کی تاریخ مقرر کی گئی تھی ۔واضح رہے کہ 6 دسمبر 1992 کو بھارتی انتہا پسندوں نے بابری مسجد کوشہید کیا تھا جس کے بعد ایودھیا کی انتظامیہ نے 2مقدمے درج کیے تھے، ایک مقدمہ مسجد کو شہید کرنیوالے ہزاروں نامعلوم ہندو رضاکاروں کے خلاف درج ہوا تھا، جبکہ دوسرا مقدمہ بابری مسجد کوشہید کرنے کی سازش سے متعلق تھا۔دونوں مقدمے پہلے رائے بریلی اور لکھنو کی دوعدالتوں میں چلائے گئے بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر دونوں مقدمے یکجا کیے گئے۔بھارتی سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد 19 اپریل 2017 کو سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے انہدام کے تمام کیس اسپیشل کورٹ لکھنو منتقل کرنے کی ہدایت دی اور حکم دیا کہ دو سال کے اندر ٹرائل ختم کیا جائے ۔