براڈ شیٹ معاملے میں کی جانیوالی ادائیگی ماضی کے این آر اوز کی قیمت ہے،شہزاد اکبر
31 دسمبر 2020 کو براڈ شیٹ کو واجب الادا رقم کی ادائیگی کی گئی جس کے بعد اس نے عبوری حکم واپس لے ،پریس کانفرنس
اسلام آباد (ویب ڈیسک )وزیراعظم کے مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ براڈ شیٹ معاملے میں جو ادائیگی کی گئی وہ ماضی میں کی گئیں ڈیلز اور دیئے گئے این آر اوز کی قیمت ہے۔ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے وکلا نے براڈ شیٹ سے متعلق فیصلے منظر عام پر لانے کے لیے رابطہ کیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے اس پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ براڈ شیٹ کے معاملے میں کوانٹم اور ہائی کورٹ کے احکامات تھے، عدالت کا فیصلہ اپیل پر ہونے کی وجہ سے عوام کے لیے قابل رسائی تھا البتہ واجب الادا کی رقم کے تعین کے حوالے سے کوانٹم کا حکم پرائیویٹ تھا۔ان کے مطابق وزیراعظم کے حکم پر ہم نے اپنے وکلا کے ذریعے براڈ شیٹ کے وکلا سے رابطہ کیا گیا اور ان سے تحریری طور پر ان سے رضامندی حاصل کی گئی کہ حکومت پاکستان تمام فیصلوں کو منظرِ عام پر لانا چاہتی ہے جس پر ان کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کے موکل کو یہ فیصلے منظر عام پر لانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔براڈ شیٹ کمپنی کے ساتھ معاملات کے آغاز سے تفصیلات بتاتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ سال 2000 میں جون کے مہینے میں قومی احتساب بیورو (نیب)اور براڈ شیٹ کے مابین اثاثہ برآمدگی کا پہلا معاہدہ ہوا، جس کے بعد جولائی 2000 میں ایک اور ادارے انٹرنیشنل ایسٹ ریکوی کے ساتھ ایک اور معاہدہ ہوا۔انہوں نے کہاکہ دسمبر 2000 میں جب نواز شریف اس وقت کی حکومت سے ڈیل کر کے سعودی عرب چلے گئے تو ایک اور معاہدہ ہوا جو چلتا رہا اور اس میں اس کمپنی کو مختلف اہداف دیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 28 اکتوبر 2003 میں حکومت پاکستان یعنی نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ یہ معاہدہ منسوخ کردیا، جس کے بعد دونوں اداروں نے 2007 میں حکومت پاکستان کو نوٹس دے دیا تھا کہ ہماری رقم واجب الادا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان نوٹسز کے تناظر میں آئی اے آر کے ساتھ جنوری 2008 میں تصفیہ کیا گیا اور انہیں 22 لاکھ 50 ہزار ڈالر ادا کیے جانے تھے جو اب بھی نافذالعمل ہے۔انہوں نے کہا کہ 20 مئی 2008 ء کو براڈ شیٹ کے ساتھ بھی تصفیے کے معاہدے پردستخط ہوئے جس کے تحت انہیں 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اکتوبر 2009 ء کو براڈ شیٹ نے واجب الادا رقم کی ادائیگی کے لیے ایک مرتبہ پھر حکومت پاکستان کو نوٹس بھیجا، چنانچہ اس دور میں دوبارہ ثالثی کی کوششوں کا آغاز ہوا جبکہ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ انہوں نے کہا کہ ثالثی میں معاملہ چلتا رہا اور 2016 ء میں اپنے اختتام پر پہنچا جس کے تحت اگست 2016 ء میں پاکستان کے خلاف واجب الادا رقم کا دعویٰ منطور ہوگیا، جس کے بعد 2 سال تک رقم کے تعین کا سلسلہ چلا اور اس کا فیصلہ جولائی 2018 ء میں ہوا۔انہوں نے کہاکہ اگست 2018 ء میں ہماری حکومت آئی اور جولائی 2019 میں اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ اپیل کی گئی جس کا فیصلہ ہمارے خلاف آیا، جون 2020 میں براڈ شیٹ نے ثالثی کا عبوری حکم حاصل کیا کہ پاکستان کو رقم کی ادائیگی کرنی ہے لہذا اس کے جہاں بھی اثاثے ہوں ان پر ایک ضمنی حکم جاری کیا جائے، یہ حکم ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور بینک اکائونٹس پر لیا گیا۔شہزاد اکبر کے مطابق 31 دسمبر 2020 کو براڈ شیٹ کو واجب الادا رقم کی ادائیگی کی گئی جس کے بعد اس نے عبوری حکم واپس لے لیا۔انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ کا معاملہ سامنے رکھنے سے ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ یہ معاملہ ماضی کی ڈیلز اور این آر اوز کی قیمت ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں جو این آر او اور تصیفے ہوئے اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے کیوں کہ اس کی ادائیگی حکومت پاکستان کو آپ کے ہی ٹیکس کے پیسوں سے کرنی پڑی ہے۔