Pakistani property developer Malik Riaz Hussain speaks with a Reuters correspondent during an interview at his office in Bahria Town on the outskirts of Islamabad, Pakistan March 10, 2016. To match Interview PAKISTAN-PROPERTY/TYCOON REUTERS/Caren Firouz

القادر ٹرسٹ ریفرنس: ملک ریاض، شہزاد اکبر، دیگر 4 افراد کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری

اسلام آباد ( ویب  نیوز)

احتساب عدالت اسلام آباد نے 190 ملین پانڈز کا القادر ٹرسٹ ریفرنس سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض، وزیر اعظم کے سابق معاونین خصوصی مرزا شہزاد اکبر اور زلفی بخاری اور دیگر تین افراد کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ کی قریبی دوست فرحت شہزادی، وکیل ضیا المصطفی نسیم اور ملک ریاض کے بیٹے علی احمد ریاض کے بھی ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔گزشتہ ہفتے قومی احتساب بیورونے  القادر ٹرسٹ کیس کے سلسلے میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی سمیت 7 افراد کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ عمران خان اور بشری بی بی نے 50 ارب روپے کی قانونی حیثیت کے لیے بحریہ ٹان لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال کی اراضی حاصل کی جس کی نشاندہی پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت کے دوران برطانیہ نے کی اور ملک کو واپس کیے۔نیب کی جانب سے دائر ریفرنس میں الزام لگایا گیا ہے کہ جیل میں موجود عمران خان نے بحریہ ٹان کراچی کی جانب سے اراضی کی ادائیگی کے لیے نامزد کردہ اکانٹ میں ریاست پاکستان کے لیے فنڈز کی غیر قانونی منتقلی میں اہم کردار ادا کیا۔ریفرنس میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ جواز فراہم کرنے اور معلومات فراہم کرنے کے متعدد مواقع فراہم کیے جانے کے باوجود ملزم نے جان بوجھ کر اور بدنیتی کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے معلومات دینے سے انکار کیا۔ریفرنس میں فرحت شہزادی، وزیراعظم کے سابق معاونین خصوصی زلفی بخاری اور شہزاد اکبر، وکیل ضیا المصطفی نسیم اور پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور ان کے بیٹے کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔آج اسلام آباد کے احتساب جج محمد بشیر نے تحریری حکم نامہ جاری کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ رجسٹرار آفس کی جانب سے 190 ملین پانڈ اسکینڈل ریفرنس کی اسکروٹنی مکمل کر لی گئی ہے، عدالت ریفرنس کو ٹرائل کے لیے منظور کرتی ہے۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان پہلے ہی جوڈیشل ریمانڈ میں ہیں اور انہیں سائفر کیس کے سلسلے میں عدالت میں پیش کیا گیا۔انہوں نے ہدایت کی کہ اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو نوٹس جاری کیا جائے جہاں سابق وزیر اعظم قید ہیں کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو 6 دسمبر (بدھ) کو ہونے والی اگلی سماعت پر پیش کریں۔ساتھ ہی جج نے نوٹ کیا کہ بشری بی بی نے عدالتوں سے عبوری ضمانت حاصل کر لی ہے اور ہدایت کی کہ انہیں آئندہ سماعت پر پیش ہونے کے لیے آگاہ کیا جائے۔جج نے کہا کہ ریفرنس میں نامزد دیگر چھ مشتبہ افراد جو مفرور ہیں، ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں اور اگلی تاریخ پر رپورٹس پیش کیے جائیں۔حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ریفرنس میں ٹرائل کی کارروائی 14 نومبر کو وزارت قانون کی جانب سے جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق اڈیالہ جیل یا جہاں بھی مقدمے میں نامزد افراد کو قید کیا گیا ہے وہاں چلائی جائے گی۔یادرہے کہ یکم دسمبر کو دائر کردہ ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کو وضاحت دینے اور معلومات فراہم کرنے کے متعدد مواقع فراہم کیے گئے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر بد نیتی کے ساتھ کسی نہ کسی بہانے سے معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔مزید برآں، ان کے جوابات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے پاس اپنے دفاع میں مذکورہ الزامات کو رد کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اس طرح ان سب نے قومی احتساب آرڈیننس کے تحت جرم کا ارتکاب کیا۔اس میں مزید کہا گیا کہ اب تک کی تحقیقاتی کارروائیوں اور نتائج سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ملزمان نے ایک دوسرے کی ملی بھگت سے بدعنوانی کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے ریاست کے لیے مختص فنڈز کی غیر قانونی منتقلی میں اہم کردار ادا کیا جس کا فائدہ بالآخر ملک ریاض کو ہوا۔ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ شہزاد اکبر اور اثاثہ ریکوری یونٹ کے سربراہ نے ریاست کے لیے مختص فنڈز کے غیر قانونی ڈیزائن میں اہم کردار ادا کیا۔ریفرنس میں کہا گیا کہ ملک ریاض نے ریاست کے لیے مختص فنڈز کی منتقلی کے لیے دیگر مدعا علیہان کے ساتھ مدد کی اور سازش میں مکمل تعاون کیا۔بشری بی بی اور فرحت شہزادی نے بھی غیر قانونی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کیا جبکہ فرحت شہزادی عمران خان اور ان کی اہلیہ کے لیے فرنٹ ویمن کا کردار ادا کرتی تھیں۔ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ 8 مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کرنا منصفانہ اور مناسب ہے کیونکہ ریفرنس کو درست ثابت کرنے کے لیے کافی مجرمانہ شواہد دستیاب ہیں۔عدالت میں استدعا کی گئی کہ آٹھوں ملزمان پر مقدمہ چلایا جائے اور عدالت یا کسی اور جس کو ریفرنس سونپا گیا ہو قانون کے مطابق سزا دی جائے۔