پاکستان سٹیل ملزسے متعلق کیس کی سماعت کے دورا ن نجکاری کمیشن اور وزارت صنعت و پیدوار سے دوہفتے میں جواب طلب

عدالت کوآگاہ کیا جائے کہ سٹیل مل کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں،سپریم کورٹ

وفاقی وزرا بتائیں سٹیل مل کیساتھ کیا کرنا ہے؟ سٹیل مل پر روزانہ کا خرچہ بلاوجہ ہورہا ہے۔ سرکار کا پیسہ بانٹنے کے لیے نہیں ہوتا؟چیف جسٹس کا استفسار

اسلام آباد (ویب  نیوز) سپریم کورٹ نے پاکستان سٹیل ملزسے متعلق کیس کی سماعت کے دورا ن نجکاری کمیشن اور وزارت صنعت و پیدوار سے دوہفتے میں جواب طلب کرتے ہوئے ہدایت کی  ہے کہ عدالت کوآگاہ کیا جائے کہ سٹیل مل کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پاکستان سٹیل ملز کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو  سیکرٹری نجکاری کمیشن عدالت میں پیش ہوئے چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ وفاقی وزرا بتائیں سٹیل مل کیساتھ کیا کرنا ہے؟ سٹیل مل پر روزانہ کا خرچہ بلاوجہ ہورہا ہے۔ سرکار کا پیسہ بانٹنے کے لیے نہیں ہوتا؟چیف جسٹس نے سیکرٹری نجکاری حسن ناصر جامی سے استفسار کیاکہ کیوں نہ سٹیل مل کا روز کا خرچہ آپ سے ریکور کریں۔ سیکرٹری صاحب آپکی ناکامی ہے جو سٹیل مل پر خرچہ ہورہا ہے۔ کیا آپکو اس پیسہ کے جانے کا کوئی درد نہیں ؟ جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت  کے بعدکسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سٹیل مل میں بجلی پانی تنخوائیں سب کچھ مل رہا ہے بس مل بند ہے۔ کسی سرکاری افسر کو پرواہ نہیں سب گھروں میں سو رہے ہیں۔سٹیل مل میں 450 افسران کریں گے؟  تمام افسران کو ایک لیٹر سے گھر بھجوائیں۔سٹیل ملز کے چیئرمین بیرون ملک گھوم رہے ہیں۔سی ای او کے گھر کا گھیراو ہے تو حکومتی رٹ ناکام ہو گی۔ ہر طرف مکمل طور پر بے بسی کا عالم ہے۔ اس دوران وفاقی وزیر برائے نجکاری محمد میاں سومرو کا کہنا تھا کہ واجبات ختم ہونے کے بعد ہی نجکاری کا عمل مکمل ہوگا،اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اسٹیل مل کی نجکاری ماضی میں بھی کالعدم ہو چکی ہے،وفاقی وزیر نجکاری نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم سٹیل مل کی نجکاری نہ کریں، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نہیں کہہ رہے کی نجکاری نہ کریں لیکن عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھیں،اس موقع پروفاقی وزیر اسد عمر نے بنیادی طور پر اسٹیل مل کو لیز پر دیا جائے گا،سٹیل مل کی ملکیت حکومت کے پاس ہی رہے گی،محمد میاں سومرو کا کہنا تھا کہ سٹیل مل کے اثاثوں کی مالیت 100 ملین ڈالر ہے، ستمبر یا اکتوبر میں سٹیل مل کی بولی لگنے کا امکان ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا نہ ہو پھر کوئی غیر ملکی ثالثی ٹربیونل جائے اور جرمانہ ہو جائے،محمد میاں سومرو کا کہنا تھا کہ واجبات ادا کرکے اسٹیل مل کو پرکشش بنائیں گیاس پر عدالت نے ان سے کہاکہ اسٹیل مل کے حوالے سے جو منصوبہ ہے وہ تحریری طور پر پیش کریں،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ سد عمر صاحب آپکی ٹیم کیا کر رہی ہے؟ اس پر اسد عمر کا کہنا تھا کہ مجھے علم نہیں کہ عدالت بلایا کیوں گیا ہے؟ پلاننگ کمیشن کا سٹیل مل کی نجکاری سے کوئی تعلق نہیں 14 ماہ پہلے سٹیل مل کی نجکاری کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اسد عمرنے مزید بتایا کہ سی پیک کے تحت چائینز کمپنی کو حوالے کرنے کا آپشن تھا۔اب نجکاری کمیشن نے اب اپنا کام کرنا ہے، وزیر نجکاری محمدمیاں سومرو کا کہنا تھا کہ  نجکاری پر کافی پیشرفت ہو چکی ہے مسئلہ پیسوں کا ہے۔و کوئی بھی ساڑھے تین سو ارب کے واجبات ادا کرنے کو تیار نہیں۔ شپ یارڈ کے لیے پیسہ چاہییں جو نہیں ہیں۔اس دوران اسد عمر کا کہنا تھا کہ گوادر میں نیا شپ یارڈ بن رہا ہے۔ کراچی شپ یارڈ میں توسیع ہورہی ہے بند نہیں کیا گیا۔ دوہزار اٹھ میں سٹیل مل منافع میں تھی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ملک میں صنعتی انقلاب لائیں کس نے روکا ہے؟سٹیل مل میں 40 تو کیا پانچ افسر بھی نہیں رہنے دیں گے ،ملازمین کی اصل تنظیم سی بی اے ہوتی ہے۔سی بی اے کے علاوہ باقی تنظیموں کی حیثیت نہیں۔ سٹیل مل انتظامیہ صرف سی بی اے سے مذکرات کی پابند ہے۔ مل بند پڑی ہے ملازمین کو پیسے کس بات کے دیں۔ اس پر اسد عمر کا کہنا تھاکہ کابینہ کااجلاس جارہی ہے عدالت اجازت دے ، عدالت نے ان کی استدعا منظور کرلی تو اسد عمر اور میاں محمد سومرو عدالتی اجازت سے کابینہ اجلاس کے لیے روانہ ہوگئے ، کیس کی سماعت آگے بڑھی تو ملازمین کے وکیل نے دلائل میں کہاکہ مل بند پڑی ہے توذمہ دار انتظامیہ ہے۔نکالے گئے 41 ملازمین نے حکم امنتاع حاصل کر لیا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھاکہ سٹیل مل مردہ گھوڑا ہے کتنا عرصہ کھائیں گے۔سی بی اے کے وکیل کا کہنا تھا کہ ملازمین ہڑتال ختم کر چکے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ مل بند پڑی ہے تو ملازمین کس بات پر ہڑتال کر رہے ہیں۔ اس پرسٹیل ملز کے وکیل کا کہنا تھاکہ صرف 70 سے 80 فیصد ملازمین کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ قوم کے مفاد میں عدالت بقیہ 51 فیصد ملازمین نکالنے کی اجازت دے ،اس دوران سٹیل ملزکے وکیل  شاہ باجوہ نے کہاکہ  ملازمین اپنے بقایاجات لینے نہیں آئے ۔ عدالت کہے تو چیک جمع کروا دیتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ملازمین اور سٹیل ملز کے وکلا بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں۔ عدالت نے نجکاری کمیشن اور وزارت صنعت و پیدوار سے دوہفتے میں جواب طلب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ عدالت کوآگاہ کیا جائے کہ سٹیل مل کے حوالے سے کیا اقدامات کیے جارہے ہیں؟