اسلام آبادہائی کورٹ حملہ کی تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی بنا نے کا فیصلہ
اسلام آباد پولیس نے ہائی کورٹ واقعے پر جے آئی ٹی بنانے کی تجویز دی جسے عدالت نے منظور کرلیا
سینئر افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی جائے، پیش رفت رپورٹ کل ( پیر) تک عدالت میں جمع کروائی جائے،عدالت
کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور نا ہی ہائی کورٹ پر حملے کے واقعے کو کسی صورت نظر انداز کیا جائے گا
بار کے صدور سے معاونت لی جائے وہ نشاندہی کریں گے کہ اس وقعہ میں کون، کون ملوث تھے،چیف جسٹس اطہر من اللہ
اس روز جویہاں آئے تھے وہ سب وکیل تھے اور باہرسے کوئی نہیں تھا جبکہ آدھے سے زائدکو میں جانتا ہوں
آپ سب کو پتہ ہے وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے یہاں حملہ کیا ،میں نے خط لکھا ہے اب ریگولیٹر کی جانب دیکھ رہے ہیں وہ کیا کرتے ہیں
اسلام آباد(ویب نیوز)اسلام آبادہائی کورٹ پر وکلا ء کے حملے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے،اسلام آباد پولیس نے ہائی کورٹ واقعے پر جے آئی ٹی بنانے کی تجویز دی جسے عدالت نے منظور کرلیا، عدالت نے حکم دیا کہ سینئر افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی جائے اور اس حوالہ سے پیش رفت رپورٹ بھی کل (پیر)تک عدالت میں جمع کروائی جائے ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں اور نا ہی ہائی کورٹ پر حملے کے واقعے کو کسی صورت نظر انداز کیا جائے گا۔ہفتہ کوچیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہائیکورٹ حملے کے بعد وکلاکی پکڑ دھکڑ اور ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ وکلاء کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بلاک پر حملے کے بعد ان وکلاء کو بھی پولیس کی جانب سے ہراساں کیا جارہا ہے اور ان کے دفاتر پر چھاپے مارے جارہے ہیں جو اس وقعہ میںملوث ہی نہیں ہیں۔ پولیس حکام اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ہفتہ کے روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے پیش ہوئے۔اسلام آباد پولیس کی جانب سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کو بتایا گیا ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بلاک پر وکلاء کے حملہ کے حوالہ سے تحقیقات کے لئے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنائی جارہی ہے، عدالت نے حکم دیا کہ سینئر افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنائی جائے اور اس حوالہ سے پیش رفت رپورٹ بھی کل (پیر)تک عدالت میں جمع کروائی جائے۔ جبکہ چیف جسٹس نے ہدایت کی ہے کہ بار کے صدور سے معاونت لی جائے وہ نشاندہی کریں گے کہ اس وقعہ میں کون، کون ملوث تھے، ہمیں یقین ہے کہ بار کے صدور اور عہدیداران اس حوالہ سے جے آئی ٹی سے معاونت کریں گے، اگر بار پہلے دن سے معاونت کرتی تو اس طرح بے گناہ وکلاء کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش نہ آتے۔ دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اس روز جویہاں آئے تھے وہ سب وکیل تھے اور باہرسے کوئی نہیں تھا جبکہ آدھے سے زائدکو میں جانتا ہوں، آپ سب کو پتہ ہے وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے یہاں حملہ کیا ،میں نے خط لکھا ہے اب ریگولیٹر کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں ، دونوں بارکے صدورکوکہا تھا وہ یہاں آجائیں لیکن وہ یہاں نہیں آئے، جنہوں نے تقاریرکیں، جنہوں نے انہیں ابھارا، ان کی نشاندہی بار کرے۔70سال سے اس کچہری کے لئے کچھ نہیں ہوا ،موجودہ حکومت اس متعلق سنجیدہ ہے اور بلڈنگ پلان کی منظوری دی جاچکی ہے ۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو ہدایت کی ہے کہ وہ بار کے نمائندوں کو بتائیںا ور تحریری طور پر آگاہ کریں کہ جوڈیشل کمپلیکس کی تعمیر کے لئے موجودہ حکومت نے کنسلٹنٹ ہائر کر لیا ہے اور بہت جلد اس کی تعمیر شروع کردی جائے گی۔ ڈپٹی کمشنر کی جانب سے بتایا گیا کہ آج وکلاء ڈی چوک کی جانب مارچ کررہے ہیں ۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ انہیں بتائیں کہ ان کے مطالبات اس حوالہ سے پہلے ہی منظور ہو چکے ہیں۔