بھارت نے مشرقی لداخ میں پینگونگ سو جھیل کنارے فنگر فور چین کے حوالے کر دیا
30 ہزار کروڑ کا ہنگامی دفاعی سازوسامان خریدنے اور بھاری جانی نقصان کے بعد پسپائی
بھارت کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، چین کا مقابلہ نہیں کر سکتے سا بق ایئر چیف مارشل کپل کاک

نئی دہلی(ویب نیوز ) مشرقی لداخ میں چین کی پیپلز لبریشن آرمی کا مقابلہ کرنے کے لیے 30 ہزار کروڑ کا ہنگامی دفاعی سازوسامان خریدنے اور بھاری جانی نقصان کے بعد بھارتی فوج  نے پی ایل اے سے پسپائی کا معائدہ کر لیا ہے۔  بھارت نے  اپنے زیر قبضہ علاقے  فنگر  فور کوچین کے حوالے کر دیا ہے ۔ بھارت  کے سابق ایئر چیف مارشل کپل کاک نے اعتراف کیا ہے کہ مشرقی لداخ میں بھارت کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑابھارت کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ وہ چین جیسے ملک کا مقابلہ کر سکے۔ بھارت اور چین کے درمیان فوجی کمانڈروں کی سطح پر مذاکرات کے ساتھ ساتھ بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اور وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اپنے  چینی ہم منصبوں کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کے درمیان دس ماہ سے جاری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بات چیت بھی کی تھی۔کے پی آئی  کے مطابق جمعرات کو  بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے گزشتہ روز پارلیمنٹ میں یہ اعلان  کیا تھا کہ لداخ میں ہندوستان اور چین کی افواج پیچھے ہٹنے پر رضامند ہو گئی ہیں۔ بھارتی کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے پریس کانفرنس میں  بتایا ہے کہ  بھارتی حکومت چین کے سامنے جھک گئی  ہے۔ راہول گاندھی نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی چین کے سامنے جھک گیے اور ہندوستان کی سرزمین چین کو سونپ دی۔ ا نہوں  نے کہا کہ وزیر اعظم کی اس حرکت کو ہندوستان کا کوئی شہری کبھی برداشت نہیں کرے گا۔ادھر کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے لوک سبھا میں تحریک التواء پیش کر کے ہندوستان اور چین کی افواج کے لداخ میں پیچھے ہٹنے کے معاملہ پر بحث کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت  کے سابق ایئر چیف مارشل کپل کاک نے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا  کہ رواں سال کے بجٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ ہمیں چین سے مقابلہ کرنے کے لیے 30 ہزار کروڑ کا ساز و سامان لانا پڑا۔ان کے مطابق  لداخ کا معاہدہ بھارت کے مفاد میں نہیں ہے۔ اسے فنگر فور سے، جہاں وہ پہلے قابض تھا، واپس نہیں آنا چاہیے تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت یہ کہتا رہا ہے کہ تمام متنازع علاقوں سے فوجیوں کی واپسی ہو گی لیکن معاہدے میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی بھارت کی کمزوری ہے کہ فوجوں کی واپسی کے بارے میں چین کے بیان کے ایک روز بعد بھارت نے بیان دیا۔ حالاں کہ اس سلسلے میں ایک مشترکہ بیان جاری ہونا چاہیے تھا۔سابق ایئر چیف مارشل کپل کاک کا کہنا ہے کہ  ابھی یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ معاملہ مکمل طور پر حل ہو گیا ہے سینئر دفاعی تجزیہ کار اجے شکلا کہتے ہیں کہ ہاں بھارت کو ہٹنا پڑا ہے اور یہ بات اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ان کے مطابق پینگونگ سو جھیل کے جنوبی علاقے میں بھارتی فوج نے اچھی پوزیشنوں پر قبضہ کر رکھا تھا جس سے اس کو کافی فائدہ تھا۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب بھی کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو دونوں جانب سے کچھ نہ کچھ ترک کرنا پڑتا ہے۔ لہذا بھارت اور چین دونوں نے کچھ نہ کچھ چھوڑا ہے۔اجے شکلا کے مطابق اس تنازع کے دوران بھارت کو اقتصادی اور فوجی نقصان ہوا ہے۔ بھارتی فوج کے دو ڈویژن پورے موسم سرما میں لداخ کے کیلاش رینج میں تعینات رہے۔ اس پر کافی اخراجات ہوئے۔ اس طرح کافی نقصان ہوتا ہے اور جانی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔کپل کاک اجے شکلا کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس دوران دونوں ملکوں کا نقصان ہوا ہے لیکن بھارت کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ کیوں کہ بھارت ایک ترقی پذیر ملک ہے۔ اس کی معیشت چین کے مقابلے میں چھوٹی ہے اور بھارت کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ وہ چین جیسے ملک کا مقابلہ کر سکے۔ دریں اثنا  بھارتی وزارتِ دفاع  نے ایک بیان میں وضاحت پیش کی ہے کہ  یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بھارت کا علاقہ فنگر فور تک ہے۔ بھارت کے نقشے میں اس علاقے کو بھی بھارت کا علاقہ دکھایا جاتا ہے جو چین کے قبضے میں ہے اور تقریبا 43ہزار مربع کلومیٹر ہے۔وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ بھارت کے مطابق لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) فنگر ایٹ تک ہے نہ کہ فنگر فور تک۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت فنگر ایٹ تک گشت کرنے کے مطالبے کا اعادہ کرتا رہا ہے۔وزارتِ دفاع نے کہا کہ ہاٹ اسپرنگ گوگرا اور دیپسانگ وادی میں جو بھی تنازع ہے اسے حل کر لیا جائے گا۔ پینگونگ سے فوجیوں کی واپسی کے 48 گھنٹے بعد ان علاقوں کی پہلے کی پوزیشن بحال کرنے پر بات کی جائے گی۔