نئی دہلی (ویب نیوز)

جموں وکشمیر کے لداخ علاقے میں بھارت اور چین کے درمیان فوجی جھڑپ  کے بعد بات چیت کے 17   دورکے باوجود کشیدگی اور تعطل برقرار ہے۔ اس صورت  حال نے بھارت کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کا رخ بدل دیا ہے۔ آزادی کی  75ویں سالگرہ منانے والے بھارت کی خارجہ اور سکیورٹی پالیسی میں اب چین سر فہرست ہے۔ مغربی نشریاتی ادارے کے مطابق  بھارت اور پاکستان کے سن 1947 میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہی کشمیر بغاوت، لاک ڈاون اور سیاسی ہنگامہ آرائی سے دوچار رہا ہے۔ حتی کہ پاکستان اور چین کے ساتھ بھارت کی چار جنگوں میں سے دو کا سبب بھی کشمیر ہی تھا۔ کشمیر دنیا کی واحد ایسی جگہ ہے جس کے سلسلے میں دنیا کی تین جوہری طاقت رکھنے والے ملکوں کے درمیان کشیدگی ہے۔ کشمیر پر نگاہ رکھنے والی بھارتی فوج کے شمالی کمان کے سابق سربراہ لفٹننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کا کہنا ہے کہ بھارت بہت تیزی سے اپنی توجہ چین پر مرکوز کر رہا ہے۔سابق بھارتی خارجہ سکریٹری کنول سبل کہتے ہیں، "کشمیر ایک طرح سے ہماری خارجہ پالیسیوں کی فکرمندیوں کے مرکز میں رہا ہے۔تاہم بھارت اور چین کے درمیان لداخ سرحدی تنازعے نے دونوں ایشیائی ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کافی اضافہ کردیا ہے۔ سفارت کاروں اور اعلی فوجی حکام کے درمیان 17 دور کی بات چیت کے باوجود یہ کشیدگی اور تعطل برقرار ہے۔ڈی ایس ہوڈا کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں تک بھارت یہی سمجھتا رہا کہ چین اس کے لیے کوئی فوجی خطرہ نہیں بنے گا۔ حالانکہ سن 2020 کے وسط میں قراقرم کے پہاڑوں میں لداخ کی گلوان وادی میں ہونے والی جھڑپ نے اس خیال کو یکسر بدل دیا۔نئی دہلی کے سینٹر فار سوشل اینڈ اکنامک پروگریس میں ریسرچ فیلو کانسٹینٹیو زیویئر کہتے ہیں، "گلوان اسٹریٹیجک لحاظ سے ایک اہم نقطہ ثابت ہوا۔ اس نے بھارت میں ایک نیا اتفاق رائے پیدا کیا کہ اسے چین کے ساتھ صرف سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے بجائے پورے رشتے کو ازسرنو طے کرنا چاہیے۔خیال رہے کہ گلوان میں عہد وسطی کے اسٹائل میں ہونے والی لڑائیوں کی طرح بھارتی اور چینی فوجیوں نے پتھروں اور لاٹھیوں کا استعمال کیا جس میں بھارت کے 20 اور چین کے چارفوجی مارے گئے۔یہ لڑائی وزیر اعظم نریندرمودی کی قیادت والی بھارت کی ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو ختم کرنے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں، لداخ اور جموں و کشمیر میں تقسیم کر دینے کے ایک برس بعد ہوئی تھی۔مودی حکومت نے اس کے ساتھ ہی زمین کے مالکانہ حقوق اور ملازمتوں کے سلسلے میں ریاست کا خصوصی اختیار کو بھی ختم کر دیا جب کہ مقامی سیاست دانوں، صحافیوں اور میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کردیں۔مودی حکومت کا دعوی تھا کہ اس اقدام کے ذریعہ صرف انتظامی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ حالانکہ ہندو قوم پرستوں کا ایک عرصے سے مطالبہ رہا ہے کہ مسلم اکثریتی کشمیر کو بھارت میں پوری طرح سے شامل کیا جائے۔پاکستان نے بھارت کے اس قدم کی سخت نکتہ چینی کی تھی اور کہا کہ کشمیر ایک بین الاقوامی تنازع ہے اور اس کی پوزیشن میں کوئی بھی یک طرفہ تبدیلی بین الاقوامی قوانین اور اقوام  متحدہ کے قراردادوں کے خلاف ہے۔تاہم بھارت کے اس اقدام پر سب سے بڑا سفارتی چیلنج چین کی طرف سے آیا جس کی بھارت کو قطعی توقع نہیں تھی۔چین نے بھارت کے اس فیصلے کی نکتہ چینی کی اور اس معاملے کو اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں اٹھایا۔ گوکہ سلامتی کونسل میں کشمیر کے تنازعے پر گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران متعدد میٹنگیں ہوچکی ہیں تاہم آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔کشمیر کے حوالے سے بھارت اپنی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے۔ وہ بین الاقوامی برادری کے سامنے اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ کشمیر پاکستان کے ساتھ اس کا دوطرفہ معاملہ ہے جبکہ پاکستان کو یہ اپنا داخلی معاملہ بتاتا ہے ۔ابتدا میں کشمیر کے کچھ حصوں میں میں بھارت کے خلاف پرامن مظاہرے ہوئے لیکن جب مظاہرین کے خلاف پولیس کارروائیاں شروع ہوئیں تو سن 1989 میں مسلح بغاوت نے زور پکڑ لیا اور کشمیر میں دہشت گردی ایک بڑا مسئلہ بن گیا۔ اور اس میں اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔جب بھارت اور پاکستان نے سن 1989 میں اپنے اپنے جوہری تجربات کیے تو کشمیر جوہری طاقت کا ایک فلیش پوائنٹ بن گیا۔ اس صورت حال کی وجہ سے عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی اور اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے کشمیر کو "دنیا کی سب سے خطرناک جگہ” کہا تھا۔بھارتی خارجہ پالیسی کے متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ باوجودیکہ کشمیرمیں عوام کے جذبات بھارتی حکومت کے خلاف ابھرتے رہے تھے اس کے باوجود بھارت کئی دہائیوں تک کشمیر میں تبدیلی کے لیے غیر ملکی دباو کو روکنے میں کامیاب رہا تھا۔