مشرقی لداخ کا تنازعہ بھارتی وزیر اعظم مودی کو طویل عرصے تک پریشان کرے گا۔ بی بی سی
مشرقی لداخ میں ایک سال بعد بھی چین اور بھارت  کے درمیان کشیدہ صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی
چین 1959  والی سرحد چاہتا ہے  بھارت نے قبول کیا توبہت سا علاقہ چین کے حصے میں چلا جائے گا

لداخ(ویب نیوز ) مشرقی لداخ میں ایک سال بعد بھی چین اور بھارت  کے درمیان کشیدہ صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی  ۔ اگرچہ چین اور بھارت نے پینگونگ تسو جھیل کے علاقے میں اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے پر اتفاق کیا ہے تاہم  چین نے ہاٹ سپرنگ، گوگرا پوسٹ اور دیپسانگ سے دستبرداری کا عندیہ نہیں دیا ہے۔  ماہرین کے خیال میں مشرقی لداخ کا تنازعہ بھارتی وزیر اعظم مودی کو طویل عرصے تک پریشان کرے گا۔اسٹریٹیجک امور کے ماہر اور انڈین فوج کے سابق کرنل اجے شکلا نے بی بی سی  کو بتایا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران انڈیا اور چین کے درمیان سرحد پر جاری تنازعے نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بدل دیا ہے۔ چین نے سنہ 1959 کے سرحد کے دعوے کا اعادہ کیا ہے۔ اگر انڈیا اسے قبول کرتا ہے تو سرحد کا بہت سا علاقہ چین کے حصے میں چلا جائے گا۔’شکلا اور دیگر ماہرین کے مطابق مشرقی لداخ میں چین کی پیش قدمی کا مطلب انڈیا کی سیکڑوں مربع کلومیٹر سرزمین پر چین کا مالکانہ حق ہوجانا ہے۔کئی دور کی بات چیت کے بعد دونوں ممالک نے پینگونگ تسو جھیل کے علاقے میں اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے پر اتفاق کیا ہے۔ لیکن چین نے ہاٹ سپرنگ، گوگرا پوسٹ اور دیپسانگ سے دستبرداری کا عندیہ نہیں دیا ہے۔چین لداخ کے مشرقی علاقے میں پہلے ہی اکسای چن کو کنٹرول کرتا ہے۔ اگرچہ انڈیا اس پر اپنا دعوی کرتا رہا ہے لیکن یہ علاقہ سٹریٹیجک لحاظ سے چین کے لیے اہم ہے کیونکہ وہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو مغربی تبت کے ساتھ جوڑتا ہے۔چین مسلسل یہ کہتا رہا ہے کہ لداخ کی موجودہ صورت حال کے لیے انڈین حکومت کی جارحانہ پالیسی ذمہ دار ہے۔چین کی پیپلز لبریشن آرمی سے ریٹائرڈ سینیئر کرنل زوہو بو نے بی بی سی کو بتایا: ‘چین کے نقطہ نظر سے دیکھین تو انڈیا لداخ کی وادی گلوان میں سڑک اور دیگر تعمیراتی کام کر رہا تھا جس پر چین کا دعوی ہے کہ وہ اس کی سرحد میں ہو رہا تھا۔’انھوں نے کہا: ‘چین روایتی طور پر انڈیا – چین سرحدی لائن کے حق میں تھا لیکن انڈیا 1962 سے پہلے کی لائن آف ایکچول کنٹرول پر زور دے رہا تھا۔ لائن آف ایکچول کنٹرول کہاں س کہاں تک ہے اسی بات پر دونوں ممالک کے مابین اختلاف ہے۔بہرحال کچھ علاقوں سے انڈین فوج کے واپس بلانے کے بعد بھی دونوں ممالک کے مابین موجودہ تنا کی وجہ سے پینگونگ تسو جھیل کے اطراف آباد دیہات کے لوگوں کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔چشول کے سرحدی گاں میں آزاد کونسلر کونچوک سٹینجن نے بتایا کہ ‘انڈین فوج مقامی خانہ بدوش لوگوں کو اپنی روزی روٹی اور جانوروں کو چرانے کے لیے پہاڑوں میں جانے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔’ان کے مطابق جانوروں کو سردیوں کے موسم میں چارے کے لیے بلیک ٹاپ اور گورنگ ہلز میں لے جانے کی ضرورت ہوتی ہے۔سٹینجن نے کہا: ‘جب مقامی لوگ اپنے جانوروں اور خیموں کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں جاتے ہیں تو ایک لینڈ مارک بناتے ہیں۔ اور سرحدی تنازعے کے مذاکرات کے دوران یہ لینڈ مارکز بہت اہم ہو جاتے ہیں۔ اگر مقامی لوگ اپنے روایتی کھیتوں میں جانا چھوڑ دیں گے تو مستقبل میں یہ ہمارے مفاد میں نہیں ہوگا۔’سٹینجن کے الزامات پر انڈین فوج نے اپریل میں کہا تھا کہ ابھی تک لائن آف ایکچول کنٹرول کو حتمی شکل نہیں دی گئی ہے اور عام لوگ اپنی طرح سے اس کی غلط تشریح و تعبیر کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی انڈین فوج نے یہ بھی کہا ہے کہ مشرقی لداخ کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر مقامی لوگ مویشیوں کے ساتھ ممنوعہ علاقوں میں نہ جائیں۔حالیہ دنوں میں انڈیا کووڈ 19 انفیکشن کی دوسری مہلک لہر سے لڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے انڈین میڈیا میں اس وبا کے متعلق زیادہ باتیں ہو رہی ہیں جبکہ انڈیا-چین سرحدی تنازعے کے بارے میں کم باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن اگر ماہرین کی بات مان لی جائے تو یہ تنازع انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کو طویل عرصے تک پریشان کرے گا۔اس تنازعے کے ابتدائی مرحلے میں وزیر اعظم مودی نے کہا تھا کہ سرحد کے اندر کوئی دراندازی نہیں ہوئی ہے۔ ان کے اس بیان پر فوجی ماہرین بہت مایوس ہوئے تھے۔اجے شکلا کے مطابق اس کے بعد سے صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘انڈیا کی سیاسی قیادت یہ دکھانا چاہتی ہے کہ چین نے ہماری سرزمین پر قبضہ نہیں کیا ہے۔ حکومت اپنی ناکامی کو چھپانا چاہتی ہے۔ لیکن اگر ہم یہ ظاہر کردیتے ہیں کہ ہماری سرزمین پر کسی نے قبضہ نہیں کیا ہے تو ہم اسے واپس کس طرح حاصل کریں گے؟دوسری جانب حکومت ہند کو اب اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ چین سٹریٹجک نقطہ نظر سے زیادہ طاقتور بھی ہے اور انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی۔ چینی سرمایہ کاری اور درآمدات کے بغیر انڈیا میں بہت سے کاروبار مشکل میں پڑسکتے ہیں۔انڈیا کووڈ انفیکشن کا مقابلہ کرنے کے لیے چینی تاجروں سے زندگی بچانے والے طبی سازو سامان اور طبی آکسیجن درآمد کررہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگوں سے اپیل کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک موجودہ تنا سے بالاتر ہوکر سرحد پر تحمل اور امن کا مظاہرہ کریں۔چینی فوج کے ریٹائرڈ افسر جوہو کہتے ہیں کہ ‘مجھے یقین ہے کہ یہ باہمی تعلقات میں سب سے اہم دور نہیں ہے۔ لیکن یہ باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے یقینی طور پر اہم دور ثابت ہوسکتا ہے۔’