کشمیریوں میں بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا رحجان بڑھ گیا ہے۔ بھارتی رپورٹ
کشمیر میںصحافت کو جرم قرار نہ دیا جائے، فوجی آپریشنوں میں شہریوں کے گھروں کو نہ اڑایا جائے،
کشمیر میں جمہوری راستے کھولیں جائیں،اپوزیشن جماعتوں کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے
سابق بھارتی وزیر خزانہ  یشونت سنہا کی سربراہی میں کنسرنڈ سٹیزنزگروپ کی کشمیر رپورٹ جاری ہو گئی

نئی دہلی(ویب نیوز ) سابق بھارتی وزیر خزانہ  یشونت سنہا کی سربراہی میں غیر سرکاری بھارتی سول سوسائٹی ادارے کنسرنڈ سٹیزنزگروپ ( سی سی جی) نے  بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ کشمیریوں میں پائے جانے والے غصے کو دور کرنے کے لئے جموں وکشمیر میں جمہوری راستے کھولے  جائیں۔ جموں وکشمیر میںصحافت کو جرم قرار نہ دیا جائے اور صحافیوں کو زمینی سطح سے رپورٹنگ کرنے کی اجازت دی جائے۔ جموںوکشمیر میں فوجی آپریشنوں کے دوران شہریوں کے گھروں کو نہ اڑایا جائے۔ بھارتی اپوزیشن  جماعتوں کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت دی جائے۔  بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق کنسرنڈ سٹیزنزگروپ نے مقبوضہ کشمیر کے دورے کے بعد جموں وکشمیر کی صورت حال پر اپنی خصوصی رپورٹ جاری کر دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق کشمیری نوجوانوں میں بھارت کے خلاف غم و غصے میں ہتھیار اٹھانے کا رحجان بڑھ گیا ہے  جبکہ  وادی میں سری نگر سمیت دیہی و شہری علاقوں میں بھی عسکریت پسندی کی حمایت بڑھ رہی ہے۔ فوجی آپریشنوں کے وران بڑی تعداد میں کشمیری نوجوانوں کے مارے جانے کے باوجودعسکریت پسندوں کی تعداد کم نہیں ہو رہی ہے۔کے پی آئی کے مطابق  رپورٹ میں نشاندھی کی گئی ہے کہ فوجی آپریشنوں کے وران ان گھروں کو  تباہ کر دیا جاتا ہے جن میں عسکریت پسند پناہ لیے ہوتے ہیں۔ صرف رہی گھر نہیں دوسرے گھر بھی متاثر ہوتے ہیں۔کہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے صرف وہ مکان نہیں اڑائے جاتے ہیں جن میں عسکریت پسند پناہ گزین ہوتے ہیں بلکہ متصل مکانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس سال کے سخت ترین سال کے دوران بھی کشمیر میں ان مکانوں کا اڑانے کی پالیسی جاری رہی جن میں عسکریت پسند پناہ لیتے تھے۔بھارت کے ایک سول سوسائٹی گروپ کنسرنڈ سٹیزنزگروپ نے کشمیر سے متعلق اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ مقبوضہ جموںوکشمیر 5 اگست 2019 کے بعد سے بدستور افرا تفری کا شکار ہے اور گروپ نے کشمیر کے اپنے سابقہ دوروں کے دوران کشمیریوں کے اندر جو غصہ، مایوسی اور بھارت کے خلاف نفرت دیکھی تھی وہ تاحال برقرار ہیں۔گروپ کے ارکان نے رواں برس 30 مارچ سے 02 اپریل تک مقبوضہ علاقے کے دورے کے بعد مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا کہ اہم سیاسی جماعتوں کا عملی طور پر خاتمہ ، 370اور 35 اے کی دفعات کی منسوخی ، مقبوضہ علاقے کی تقسیم اور نئے ڈومیسائل قوانین کے نفاذ سے ایسا لگتا ہے کہ کشمیری آبادی میں خوف ، ذلت اور ناامیدی کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔گروپ کے ارکان وجاہت حبیب اللہ ، کپل کاک ،  سوشابہ بارو، بھرت بھوشن اور یشونت سنہا نے اپنی رپورٹ میںمزید کہا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے یکے بعد دیگر ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کے اقدام نے بھارت مخالف جذبات اور لوگوں کے غصے کو بڑھا دیا ہے ۔ گروپ کے ارکان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے حالیہ دورے میں بڑے پیمانے پر کشمیر یوں کو بھارت کے ساتھ نفرت کا اظہار کرتے پایا جو پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔گروپ نے کہاکہ حکومتی پالیسیوں اور پولیس کارروائی کے خلاف سوشل ، پرنٹ یا پھرالیکٹرانک میڈیاسمیت کسی بھی پلیٹ فارم پر کسی قسم کے اختلاف یا تنقید کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ صحافت کو عملی طور پر جرم قرار دیا گیا ہے اور سول سوسائٹی کی طرف سے کسی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں ہے ،اور نہ ہی سیاسی جماعتوں کو جلسے کرنے کی اجازت ہے ۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس صحافیوں اور عام شہریوں کو طلب کرنے اور یہاں تک کہ انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بند کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتی ہے۔گروپ نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالات کی بہتری کیلئے 5اگست 2019سے پہلے کی پوزیشن کی بحالی ناگزیز ہے۔ رپورٹ کے مطابق  گروپ کے ارکان نے دورہ سری نگر کے دوران میرواعظ عمر فاروق سے ان کی رہائش گاہ پر ملنے کی کوشش کی  لیکن پولیس نے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ ہم ان کی رہائش گاہ کے گیٹ کے باہر قریب بیس منٹ تک کھڑے رہے اور ان کی رہائش گاہ کی حفاظت پر مامور ایک پولیس افسر یہ اصرار کرتا رہا کہ میر واعظ نظر بند نہیں ہیں لیکن آپ بعض مخصوص حالات کے پیش نظر ان سے نہیں مل سکتے ہیں’۔مذکورہ گروپ نے کہا کہ ہم نے باہر سے ہی میرواعظ کے ساتھ فون پر بات کی وہ بہت ہی افسردہ تھے۔