فرانس کے سفیرکوواپس بھیجو،ملک میں 100 سال بھی توڑپھوڑ سے یورپ میں توہین رسالت ختم نہیں ہوگی

پاکستان میں زرعی پیداوار دگنی کی جاسکتی ہے،نے فیصلہ کیا ہے کہ زرعی شعبے کی سربراہی میں خود کروں گا

عثمان بزدار کو لاتے وقت یہ سوچا کہ اسی طرح کا وزیراعلی چاہیے جو میری سوچ پر عمل کر ے ، یہ نہ ہو کے منی لانڈرنگ کرکے ٹی ٹیز لگوائے

شہباز شریف اور بزدار کا موازنہ تو کریں،ڈھائی سال پہلے بالی ووڈ اداکار کبھی بوٹ پہن کرپانی میں کھڑا ہوجاتا تھا ، کبھی ٹوپی پہن کر آجاتا تھا

وزیراعظم کا ملتان میں جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے سنگ بنیاد رکھنے اور کاشت کاروں کیلئے کسان کارڈ کے اجرا کی الگ الگ تقاریب سے خطاب

ملتان (ویب ڈیسک)

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایک جماعت نے کنپٹی پربندوق رکھ کے کہا فرانس کے سفیرکوواپس بھیجو،ملک میں 100 سال بھی توڑپھوڑ سے یورپ میں توہین رسالت ختم نہیں ہوگی، پاکستان میں اس سال گندم کی پیداوار کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا،پاکستان میں زرعی پیداوار دگنی کی جاسکتی ہے اور اس کے لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ زرعی شعبے کی سربراہی میں خود کروں گا اور ہر ہفتے نئے اقدام کی تفصیلات ٹائم فریم کے ساتھ فراہم کروں گا۔ملتان میں جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے سنگ بنیاد رکھنے اور کاشت کاروں کے لیے کسان کارڈ کے اجرا کے لیے الگ الگ تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ٹی ایل پی کا طریقہ ہے اسلام آباد پر ہلا بولو، مظاہرے اور توڑ پھوڑ کرو، مغرب میں گستاخی اس طریقے سے ختم نہیں ہوسکتی، مسلم حکمرانوں کے ساتھ جدوجہد کا ہمارا طریقہ کامیاب ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے ہم ایک اپروچ کے ذریعے یورپی یونین اور اقوام متحدہ میں جائیں گے، اس کاآغاز ہم کرچکے ، شاہ محمود قریشی نے 4 مسلمان ملکوں کے سربراہوں سے بات کرلی ہے ، وہ سب ہم سے متفق ہیں ، حکومت کے پانچ سال پورے ہونے سے پہلے قوم کو خوشخبری دوں گا کہ یورپ اور امریکا میں ہمارا پیغام جاچکا ہوگا۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ملتان کے عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ عثمان بزدار کو کیوں وزیراعلی پنجاب منتخب کیا، عثمان بزدار پر میڈیا پر تنقید ہوتی ہے، مجھ سے کم ہوتی ہے مگر ہوتی ہے، مہم چلتی ہے کہ عثمان بزدار وزیراعلی کی اہلیت نہیں رکھتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ شہباز شریف اور بزدار کا موازنہ تو کریں، ڈھائی سال پہلے بالی ووڈ کے ایک اداکار کبھی بوٹ پہن کرپانی میں کھڑا ہوجاتا تھا ، کبھی ٹوپی پہن کر آجاتا تھا ، اپنی تشہیر پر کروڑوں روپے خرچ کرنا موازنہ نہیں ، عثمان بزدار کو لاتے وقت یہ سوچا کہ اسی طرح کا وزیراعلی چاہیے ، ایسا آدمی ہو جو میری سوچ پر عمل کر ے ، یہ نہ ہو کے منی لانڈرنگ کرکے ٹی ٹیز لگوائے ، پنجاب میں عوام کو نچلی سطح سے اوپر لانے کے لیے جو اقدامات کیے جارہے ہیں صوبیکی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا ہوگا۔عمران خان دوران تقریر شہباز شریف کو طنزیہ ہالی ووڈ اداکار کہتے کہتے اداکارہ کہہ گئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ لندن کے مہنگے علاقوں میں ان لوگوں نے محلات لیے ہوئے ہیں، لندن کے وزیراعظم کے پاس مہنگے علاقوں میں رہنے کیلئے پیسہ نہیں۔عمران خان نے کہا کہ مجھے وہ آدمی چاہیے تھا جس کا پاکستان کیلئے جینا مرنا ہو، اسے چھٹی کیلئے باہر جانا نہ پڑتا ہو۔وزیراعظم نے کہا کہ یہ لوگ لوگوں کو کہتے ہیں پیسہ لے کر آ، اپنا پیسہ باہر لے گئے ہیں، عثمان بزدار کو وزیراعلی بنایا تو انہیں پہلے ٹیسٹ کیا۔انہوں نے کہا کہ سال کے آخر تک پنجاب کے ہر گھر میں ہیلتھ کارڈ جائے گا، چھوٹے کسان کی مدد کریں گے تو ملک میں خوشحالی آئے گی، عثمان بزدار کا علاقہ ڈی جی خان سب سے پسماندہ ہے، ہمیں تمام علاقوں کی ترقی کرنی ہے، صرف ایلیٹ کے علاقوں کی نہیں کرنی، تخت لاہوروالوں نیرائے ونڈمیں عوام کے پیسے سے کام کرائے،اپناپیسہ باہررکھا۔وزیراعظم نے کہا کہ پہلے میری پارٹی چھوٹی سی پارٹی تھی، میں نے شاہ محمود قریشی کو بھی پارٹی میں آنے کی دعوت دی تھی، شاہ صاحب نے تب سوچا کہ ابھی تھوڑا سا ٹھہرجا، میں تمہیں دیکھوں گا کیا کرتے ہو۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کسان پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اسے جتنا مضبوط کریں گے، اتنا ہم اپنے ملک کو مضبوط کریں گے۔انہوں نے کہا ہے کہ آج ہم نے وہ قدم اٹھایا جو ثابت کرے گا کہ ہم جدید زراعت کی جانب جارہے ہیں، آج اجرا ہونے والا کسان کارڈ پاکستان کو تبدیل کردے گا، جیسے جیسے ٹیکنالوجی کی طرف جاتے رہیں گے کرپشن نیچے آتی رہے گی۔وزیراعظم نے کہا کہ صرف ہمارے دور میں کسانوں کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں 500روپے کا اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں کسانوں کے پاس 500ارب روپیہ آیا۔انہوں نے کہا کہ کسانوں کو ملنے والی گندم، مونگی، مکئی اور دودھ کی قیمت سے کسانوں کے پاس اضافی 11 سو ارب روپے گئے ہیں، سب سے زیادہ غربت دیہاتوں میں ہے اور اس طرح ہم تخفیف غربت کے ہدف کی جانب بڑھ رہے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ 12 سو ارب روپے دیہاتی علاقوں میں جانے کا مقصد ہے کہ وہاں حالات بہتر ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ کسان کارڈ پر ایک ہزار کی ڈی ایل پی پر سبسڈی دی جائے گی جس میں کھاد اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی ملے گی۔انہوں نے بتایا کہ اس کسان کارڈ کے ذریعے ہم قرضے بھی دے سکیں گے اور جب قدرتی آفات کے سبب فصل تباہ ہوجاتی ہے تو ان کی بھی اس کارڈ کے ذریعے مدد کی جائے گی۔وزیر اعظم نے بتایا کہ پانی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پیداوار متاثر ہوتی ہے اس کے لیے 50سال بعد 2بڑے ڈیمز تعمیر کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے کسانوں کے لیے اضافی پانی آئے گا، اس کے علاوہ چھوٹے ڈیمز اور نہریں بھی بنائی جارہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ہمارے 30ارب روپے کے ٹرانسفارمیشن پلان میں 200ارب روپے صرف نہریں پکی کرنے کے لیے مختص ہیں، چین کے ساتھ بات کر کے زراعت کو سی پیک میں شامل کردیا ہے کیونکہ وہاں ہم سے کہیں زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے اس لیے ہم ان کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے بہترین زرعی تحقیقاتی ادارے جو توجہ نہ ملنے کی وجہ سے نیچے چلے گئے تھے ان کی تجدید کی جارہی ہے اور دال، تیل کے بیج، سویابین، اسپغول ہم اب پاکستان میں اگانے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ انہیں ہم باہر سے درآمد کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں زیادہ تر علاقہ پیداوار کے لیے موافق درجہ حرارت یعنی 15سے 38ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہے، اس کا مطلب ہم کچھ بھی اگا سکتے ہیں، ہم اللہ کی نعمتوں کا بہت زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں کہ ہمیں کوئی چیز درآمد کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے کسان آج بھی وہی طریقہ کار استعمال کر رہے ہیں جو موئن جو دڑو میں 5ہزار سال پہلے رائج تھے، نئی چیزیں نہیں سوچی گئیں اس لیے ایکسٹینشنل سروسز نجی اداروں کو دینے والے ہیں کیونکہ حکومتی ایکسٹینشن سروسز نے بالکل ڈیلیور نہیں کیا۔ان کا کہنا تھا کہ اس لیے نجی شعبے کو لے کر آئیں گے، ایکسٹینشنل سروسز کا مطلب یہ کہ ایک مقررہ فرد اپنے متعلقہ علاقے میں کسانوں کے پاس جا کر انہیں نئی تکنیکیں بتائے گا جس کی بہت ضرورت ہے، ہماری زراعت بنیادی سطح کی ہے، 96سے 97فیصد کسان چھوٹے کسان ہیں وہ اپنی ذات کے لیے پیداوار اگاتے ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ایکسٹینشنل سروس کے ذریعے انہیں تربیت دی جائے گی کہ وہ اپنی پیداوار بڑھا سکیں تاکہ اپنے لیے رکھنے کے علاوہ فروخت بھی کریں اور خوشحال ہوسکیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں ساتویں یا آٹھویں نمبر پر گائیں بھینسیں پاکستان میں ہیں لیکن ہم ابھی بھی دودھ درآمد کرتے ہیں کیونکہ ہماری پیداوار کم ہے اور ان مویشیوں کی نسلیں بہتر بنانے کے لیے 40ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس سے ایک سے 2 سال میں تبدیلی آجائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ نسلیں ٹھیک کر کے پیداوار میں اضافہ کر کے ہم اپنے لوگوں کو نہ صرف کم قیمت میں دودھ بیچ سکیں گے بلکہ پنیر وغیرہ برآمد بھی کرسکیں گے۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم مویشیوں کی پیداوار 3گنا زیادہ کرسکیں تو اگلے 3سالوں میں 25ارب ڈالر صرف دودھ اور چیز کی برآمد سے کما سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سبزیوں اور پھلوں کے نقصانات 50فیصد ہیں جبکہ اناج میں ہونے والے نقصانات 20فیصد ہیں، اگر گندم کی پوری پیداوار میں سے 20فیصد گندم ضائع ہوجائے تو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے جبکہ اگر نصف پھل اور سبزیاں نہ ضائع ہوں تو ہم کتنا سستا پھل اور سبزیاں اپنے لوگوں کو دے سکیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ اس کے لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں اسٹوریج اور فوڈ پروسیسنگ پلانٹ تیار کیا جائے گا جو ہمیں نقصانات سے بچائیں گے۔انہوں نے کہا کہ کسانوں کے لیے قرضے دگنے کردیے جائیں گے تاکہ ان کے پاس اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے مزید پیسہ آئے۔وزیراعظم نے کہا کہ کھاد کے لیے 2چیزیں درآمد کی جاتی ہیں پوٹاشیئم اور فاسفیٹ، وہ دونوں بھی پاکستان میں موجود ہیں، مجھے حال ہی میں بتایا گیا کہ میانوالی اور کالا باغ میں 6 ارب ٹن پوٹاشیئم جبکہ ہزارہ میں 27ملین ٹن فاسفیٹ ہے اس لیے اب کوشش یہ ہوگی کہ ہم اپنی ضرورت خود پوری کرلیں۔وزیراعظم نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے کسانوں کی آمدن دگنی ہوجائے کیونکہ جب وہ خوشحال ہوگا تو اپنی زمین پر پیسہ لگائے گا، اس کی پیداوار بڑھے گی اس کے علاوہ ہم اپنے اناج کی پیداوار دگنی کریں اور یہ چین کی تھوڑی سی ٹیکنالوجی لے کر بڑھ سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کئی دوائیوں کے لیے درکار پودے باہر سے منگائے جاتے ہیں انہیں بھی یہاں اگانے کی کوشش کی جائے گی، پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کو بھی 5گنا بڑھایا جاسکتا ہے جبکہ دالوں کی پیداوار بھی دگنی کی جاسکتی ہے اسی طرح سیم کے علاقوں میں جھینگوں کی پیداوار دگنی کی جاسکتی ہے۔