پینشن کے مد میں اخراجات کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، معاملے کا کلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے
اسلام آباد( ویب نیوز )پاکستان میں پینشن کا موجودہ نظام فوری اصلاحات کے ذریعے درست کرنے کی ضرورت ہے۔مؤثر اصلاحات نہ ہونے سے وفاق اور صوبوں کی مالیاتی مشکلات میں اضافہ لا محالہ ہے۔ماہرین نے یہ بات پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام ’پینشن میں اصلاحات، کامیاب مثالوں سے سیکھنے کی ضرورت‘ کے موضوع پر منعقدہ مکالمے کے دوران اظہارخیال کرتے ہوئے کیا۔مکالمے کا اہتمام پائیدار توانائی و معاشی ترقی(ایس ای ای ڈی) کے اشتراک سے کیا گیا تھا۔
فیڈرل پے اینڈ پینشن کمیشن کے سابق سربراہ واجد رانا نے کہا کہ پینشن میں اصلاحات کو تنخواہوں کے نظام میں اصلاحات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ تنخواہوں اور پینشن، دونوں کی مد اخراجات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس اضافے کی وجہ سے محصولات کا بڑا حصہ ان اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کی جائنٹ سیکرٹری شینا علی منصور نے کہا کہ ایمپلائز اولد ایج بینیفٹ (ای او بی آئی) کی استعداد سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ ادارہ محض رسمی شعبے کو دیکھ رہا ہے تاہم کوشش کی جا رہی ہے کہ اس میں غیر رسمی شعبوں کے علاوہ سمندر پار پاکستانیوں کو بھی شامل کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ بڑی تعداد میں فرضی پینشنرز کا اندراج بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
سیڈ کے ٹیم لیڈ حسن خاور نے کہا کہ پینشن کا معاملہ پاکستان کی پائیدار مالیات کے ضمن میں انتہائی اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں پینشن کے نظام میں اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا ہے تاہم یہ مسئلہ دوسرے صوبوں اور وفاق کو بھی درپیش ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ سیاسی، انتظامی اور تکنیکی بنیادوں پر حل ہونا چاہئے۔بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود نے کہا کہ پاکستان میں پینشن فنڈ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔
ایس ڈی پی آئی کے جائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ وفاق کی سطح پر پینشن بجٹ میں سالانہ بیس فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔خیبر پختونخواہ میں نو برسوں کے دوران اس بجٹ میں دس گنا اضافہ ہوا جو شرح ترقی سے کہیں زیادہ ہے۔پاک تعلیم ایمپلائز ٹرسٹ کے حامد فاروق نے کہا کہ حکومت کو پینشن سے مستفید ہونے والوں سے متعلق اعداداو شمار مرتب کرنے پر توجہ دینی ہو گی۔ایس ای سی پی کے سید نیئر حسین نے زور دیا کہ پینشن کے معاملے کو کلی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔