کراچی:انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاونٹینٹ آف پاکستان نے دفاعی بجٹ15فیصد بڑھانے کی تجویز دیدی

زرعی شعبے میں اصلاحات لانے اور نئے مالی سال2021-22کے وفاقی بجٹ میں ہر سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بھی تجویز

معاشی ریکوری کے لیے اہم سیکٹرز کو فوکس کرنا ہوگا،نمبرسے قطع نظر معاشی نمو مثبت ہے اوراسٹیٹ بینک کا نمو بڑھانے میں کردار رہا ہے

زمین اورافرادی قوت کا معیشت کا حصہ بننا ترقی کا راستہ ہے،ہماری معیشت کو قوانین اور انتظام سے بہتر بنانا ہوگا۔ اشفاق تولہ

شرح سود کو بہت زیادہ بڑھانے سے معیشت کو نقصان ہوا ہے ۔ نائب صدرآئی کیپ کا پریس کلب میں بجٹ سیمینار سے خطاب

کراچی(ویب  نیوز)انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاونٹینٹ آف پاکستان(آئی کیپ)نے وفاق کے تحت زرعی شعبے میں اصلاحات لانے اور نئے مالی سال2021-22کے وفاقی بجٹ میں ہر سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیفنس 15 بجٹ فیصد بڑھاناچاہیئے ، ڈیفنس کے لئے حکومت نے 1482 ارب روپے بجٹ میں رکھے ہیں، معاشی ریکوری کے لیے اہم سیکٹرز کو فوکس کرنا ہوگا،نمبرسے قطع نظر معاشی نمو مثبت ہے اوراسٹیٹ بینک کا نمو بڑھانے میں کردار رہا ہے،زمین اورافرادی قوت کا معیشت کا حصہ بننا ترقی کا راستہ ہے،ہماری معیشت کو قوانین اور انتظام سے بہتر بنانا ہوگا۔شرح سود کو بہت زیادہ بڑھانے سے معیشت کو نقصان ہوا ہے ۔آئی کیپ کے نائب صدر اشفاق تولہ نے ہفتے کو کراچی پریس کلب میں کونسل آف اکنامی اینڈ انرجی جرنلسٹ (سیج) اور انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاونٹینٹ آف پاکستان(آئی کیپ) کے بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری معیشت کو قوانین اور انتظام سے بہتر بنانا ہوگا،پاکستانی معیشت کم شرح سود پر پھلتی پھولتی ہے،شرح تبادلہ کے انتظام سے بھی مخصوص فائدہ ہوا،سمجھنے کے لئے انتظام کو اسٹڈی کرکے ریکارڈ میں رکھنا چاہیے، ملکی  سود لاگت 1900 ارب سے بڑھ کر 3000 ارب روپے ہوگئی، بجٹ خسارہ 3565 ارب، جی ڈی پی کا 7.50 فیصد رہے گا، ترقیاتی بجٹ 504 ارب کا ہے، مجموعی اخراجات کا تخمینہ 7736 ارب روپے ہے۔ اشفاق تولہ نے کہا کہ آڑھتی دنیا بھر میں پیسہ کسان کو پیسہ دیتا ہے، اسے چینلائزڈکرنا ہوگا،کسان کی تربیت دینا ہوگی، فصلوں کے اہداف طے کریں، مالیاتی رسائی بڑھائی جائے،زرعی شعبے کو حکومت فارم ٹو مارکیٹ پالیسی دے۔سیمینار سے سیج کے صدر راجہ کامران، سیکریٹری جنرل کاشف منیر،جوائنٹ سیکریٹری ریاض اینڈی نے بھی خطاب کیا جبکہ کراچی پریس کلب کے سیکریٹری رضوان بھٹی اورسیج کے دیگر عہدیداران بھی موجودتھے۔  نائب صدر آئی کیب اشفاق تولہ نے کہا کہ آئی کیپ کے 9 ہزار ممبران 58 ممالک میں خدمات فراہم کررہے ہیں، آئی کیپ بجٹ تجاویز 68 لوگوں نے مرتب کیہیں اور یہ تجاویز کسی فرد کی نہیں تمام کیپ ممبران کی مجموعی آواز ہے،آئی کیپ نے پہلی بارحکومت کو ماڈل وفاقی بجٹ 2021ـ22 کی تجاویز پیش کی ہیں ،تجاویز میں پہلی بار آئی کیپ نے معیشت کی گروتھ کی بھی تجاویز دی ہیں ۔ اشفاق تولہ نے کہا کہ ئی کیپ نے حکومت کوبجٹ تجویزپیش کی ہے کہ لارج اسکیل صنعت کنزیومر مصنوعات تیار کررہی ہیں،  لارج اسکیل صنعت درآمدی اشیاء تیار کریں،تعمیراتی شعبے کی طرح صنعتی پیکیج دیں۔انکا کہنا تھا کہ انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاونٹینٹس آف پاکستان کی نئے مالی سال کی بجٹ تجاویز  ہر شعبے کو فوکس کیا ہے ،حکومت کو معاشی ریکوری کے لیے اہم سیکٹرز کو فوکس کرنا ہوگا، آئی کیپ نے وفاق کے تحت زرعی شعبے میں اصلاحات لانے کی تجویز دی ہے۔انہوں نے کہا کہ کسانوں کی براہ راست منڈیوں تک رسائی نہیں جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں ، زرعی اجناس مارکیٹ تک پہنچانے میں مڈل مین شامل ہونے سے مہنگائی بڑھتی ہے  ،کسانوں کو براہ  راست مارکیٹ تک رسائی سے عوام کو کم قیمت ہر اجناس مل سکیں گی، حکومت کو  الیکٹرونک نیشنل ایگریکلچر مارکیٹ پلیٹ فارم بنانا ہوگا ۔اشفاق تولہ نے مزید کہا کہ آئی کیپ نے ماڈل بجٹ میں لائف اسٹاک کے سیکٹر کو بھی فوکس کرنے کی تجویز دی ہے جبکہ فشریز سیکٹر کو بھی جدید ٹیکنالوجی منتقل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ نائب صدر آئی کیپ نے مزید کہا کہ پاکستان کی انڈسٹریل سیکٹر کے لیے بھی اہم تجاویز پیش کی گئی ہیں ،بلوچستان میں کان کنی اور نئی دریافت پر فوکس بڑھانے کی تجویز دی ہے، اس کے ساتھ ہی  بڑے پیمانے کی صنعتوں کی پیدواری لاگت کم کرنے کی تجویز دی  ہے۔اشفاق تولہ نے کہا کہ بڑے پیمانے کی صنعت میں بہتری سے پاکستان6 فیصد معاشی نمو کا ہدف حاصل کرسکے گا ،بجٹ میں چھوٹے پیمانے کی صنعت کے لیے بھی مربوط پلاننگ کرنا ہوگی ، توانائی شعبے میں سستی بجلی کی فراہمی کے لیے اقدمات کی تجویز دی ہے ،  درآمدی کوئلے کے بجائے سندھ تھر کول سے مقامی کوئلے سے  بجلی بنانے پرزیادہ توجہ دی جائے۔انہوں نے کہا کہ آئی کیپ نے تعمیراتی شعبے کے لیے وفاق کے مراعاتی پیکچ کی آخری تاریخ بڑھانے کی تجویز  دی ہے،تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات پیکچ کو دسمبر 2021 تک توسیع دینے کی تجویز  دی گئی  ہے۔انہوں نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز دی ہے،ہول سیل اور ریٹل سیکٹر کو رجسٹرڈ کرکے ان کی آمدنی پر ٹیکس وصولی بڑھائی جائے ،مالی سال 2021-22کے لیے ایف بی آرکا ٹیکس وصولی  کا 6 ہزار ارب کاہدف بہت مشکل ہے ، آئندہ مالی سال بجٹ میں ایف بی آر کا ہدف 5500 ارب سے 5600 ارب تک ہوسکے گا ،  مالی سال 2021-22کے لیے اخراجات 7232 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے ، آئی کیپ نے مالی سال 2021.22 وفاقی بجٹ خسارہ  3565 ارب تک رکھنے نے تجویز دی ہے،آئی کیپ نے مالی سال 2021-22کے لیے مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے منفی 7.52 فیصد رکھنے کی تجویز دی ہے جبکہ آئی کیپ نے برآمدات پر براہ راست ٹیکس بڑھانے کی تجویزبھی دے دی ہے۔انہوں نے کہا کہ  پاکستان کی برآمدات جی ڈی پی کا10 فیصد ہے ، برآمدی سیکٹرکا براہ راست ٹیکس کی مد میں صرف ایک فیصد حصہ ہے ، زرعی اور ہول سیل سیکٹر جی ڈی پی میں 42 فیصد حصہ ہے،زرعی اور ہول سیل سیکٹر  براہ راست ٹیکس کی مد میں 1.5 فیصد ادا کرتا ہے ۔