ایف بی آرسب سے کرپٹ محکمہ بن چکا ، کسی کے پاس کراچی کا ماسٹر پلان تک نہیں ،چیف جسٹس گلزار احمد
ہرسماعت پر دو، دو ماہ کا وقت مانگ لیتے ہیں مگر برسوں گزر گئے ،زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہ ہوسکا،جسٹس اعجاز الاحسن
کراچی (ویب ڈیسک)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا ہے کہ سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں زمینوں کے ریکارڈ کو کمپیوٹرائز ڈ کیا جائے جبکہ عدالت نے اس حوالہ سے تین ماہ میں پیش رفت رپورٹ بھی طلب کر لی ، عدالت نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ کو حکم دیا ہے کہ صوبہ میں چھ ماہ کے اندر زمینوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کام مکمل کیا جائے ۔ عدالت نے تمام سرکاری زمینوں کو واگزار کرانے کا حکم بھی دیا ہے۔ جبکہ عدالت نے ریلوے کی تمام زمینوں کو بھی واگزار کرانے کا حکم دیا ہے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ بورڈ آف ریونیو کا محکمہ سب سے کرپٹ محکمہ بن چکا ہے، کسی کے پاس کراچی کا ماسٹر پلان تک نہیں ، نہ ہی کے ڈی اے اور نہ ہی کے ایم سی کے پاس ہے اور انہوں نے اپنا ذاتی ریکارڈ بنارکھا ہے اور ایک ہی نام پر کئی، کئی انٹریز کردی جاتی ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف عوام کو پریشانی ہوتی ہے بلکہ عدالتوں میں بھی کیسز چلتے رہتے ہیں اور سروے کے نام پر ایک گورکھ دھندہ شروع کردیا گیا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سندھ اور دیگر صوبوں کی زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کے حوالے سے کیس سماعت کی،بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن ،جسٹس قاضی محمد امین احمد بھی شامل تھے۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ سے سوال کیا کہ 2007سے اب تک ریکارڈکمپیوٹرائزڈ کیوں نہیں ہوا، آپ ہرسماعت پر دو، دو ماہ کا وقت مانگ لیتے ہیں مگر برسوں گزر گئے لیکن پھر بھی زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ نہیں ہوسکا۔ اس پر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے کہا کہ سوائے ضلع ٹھٹھہ کے تمام ریکارڈ مرتب کر لیا گیا ۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آخری مرتبہ دو ماہ کا وقت2018میںمانگا گیا تھا ، یہ بتایا جائے کہ ٹھٹھہ کا ریکارڈ کیوں کمپیوٹرائزڈ نہیں ہو رہا ، تین سال سے ٹھٹھہ کا ریکارڈ مرتب نہ ہونا عجیب بات ہے۔اس پر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے کہا کہ ٹھٹھہ میں سروے نہیں ہو سکا، اس لئے مزید وقت درکار ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمدنے کہا کہ ہزاروں زمینوں کے تنازعات پیدا ہورہے ہیں ، کسی کی زمین کسی کو الاٹ کردیتے ہیں لیکن آپ لوگوںکو احساس نہیں ہوتا، زمینوں پر قبضے بھی اسی وجہ سے ہو رہے ہیں، ہم کون سی صدی میں رہ رہے ہیں، نا کلاز کیا ہوتا ہے، اس صدی میں بھی ناکلاز چل رہا ہے ، ناکلاز زمینوں پر اربوں، کھربوں روپے بنائے جارہے ہیں ، کراچی میں نا کلاز کے نام پر اربوں روپے بنائے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کا سروے کب ہو گا،کتنا وقت لگے گا،چھ ماہ میں کراچی کا سروے مکمل کر لیں ورنہ آپ کے خلاف کارروائی کی جائے گی، آپ نے یہ گورکھ دھندہ بنایا ہوا ہے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اب تو گوگل سے سروے ہو جاتا ہے اور ایک ، ایک انچ کا سروے ہو جاتا ہے۔ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو نے بتایا کہ تھوڑی مہلت دے دیں بہتری آئی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ کوئی بہتری نہیں آئی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو حکم دیا کہ وہ جائیں اور سپر ہائی وے، ملیر اور دیگر جتنی بھی سرکاری اراضی پر قبضے کئے ہوئے ہیں ان کو خالی کرائیں۔ دوران سماعت پنجاب کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا تاہم صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے وکلاء نے پیش ہو کربتایا کہ زمینوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے حوالے سے کام جاری ہے۔ کے پی حکومت کے وکیل نے کہا کہ تقریباً80فیصدکام مکمل ہو چکا ہے جبکہ بلوچستان حکومت کے وکیل نے کہا کہ چار اضلاع کی زمینوںکو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا کام مکمل کر لیا گیا۔ عدالت نے تین ماہ میں مزید پیش رفت رپورٹ طلب کر لی ۔