یو بی جی کی مثال چور مچائے شور والی ہے’ مرضی کے فیصلے نہ دینے والے کیخلاف پروپیگنڈا کرنا یو بی جی کا وطیرہ ہے

یو بی جی سرپرست ایس ایم منیر نے ٹی ڈیپ کے چیئرمین کی حیثیت سے ملکی ایکسپورٹ تباہ کردی تھی

جو شخص ایگزیکٹیو ممبر بننے کا ہی اہل نہ ہو وہ صدر کیسے بن سکتا ہے’ جعل سازی و دو نمبری پکڑی گئی ہے ‘مرزا عبدالرحمن

اسلام آباد (ویب نیوز ) یوبی جی کے سربراہ و ان کی ٹیم کی جانب سے ڈی جی ٹی او پر لگائے گئے الزامات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ جانبداری کے بے بنیاد الزامات خالد تواب کو ایف پی سی سی آئی کا صدر بنانی  کی ناکام کوشش ہے کیونکہ جو شخص ایگزیکٹیو ممبر بننے کا ہی اہل نہ ہو وہ صدر کیسے بن سکتا ہے ۔ یو بی جی کی مثال چور مچائے شور والی ہے ۔ یو بی جی کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ ہے کہ جو افسر کی ان کی مرضی کے مطابق فیصلے نہ دے تو یہ اس کے کردار پر انگلیاں اٹھا کر جھوٹے و بے بنیاد پروپیگنڈے شروع کردیتے ہیں ۔ مگر اب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو چکا ہے ۔چڑھتے سورج کے پچاری ایس ایم منیر ہواس باختہ ہو چکے ہیں۔ ایف پی سی سی آئی پر گزشتہ پانچ سال قابض رہ کر بزنس کمیونٹی کے پیسوں پر عیاشیاں کرنے والے اقتداری کی محروم کے باعث پریشان ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار بزنس مین پینل کے مرکزی رہنما و کوآرڈینیٹر ایف پی سی سی آئی مرزا عبدالرحمن نے گزشتہ روز یو بی جی کی جانب سے ڈی جی ٹی او پر لگائے بے بنیاد الزامات کے ردعمل میں کیا ۔ انہوں نے کہا کہ یونائیٹڈ بزنس گروپ کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم منیر اور ان کی ٹیم کا ماضی واضح ثبوت ہے کہ وہ پہلے چابلوسی، شفارش اور رشوت کے ذریعے اپنے کام کرانیکی کوشش کرتے ہیں اگر کوئی ان ایماندار اور فرض شناس افسر ان کی مرضی کے مطابق فیصلے نہ دے تو اس کیخلاف جھوٹے و من گھڑت پروپیگنڈے کرکے محاذ کھول دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ڈی جی ٹی او نے ایف پی سی سی آئی الیکشن کے حوالے سے تمام فیصلے میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر کیے جو یو بی جی کے چیئرمین اور ان کی ٹیم کو پسند نہ آئے حالانکہ یو بی جی کے لیڈروں نے ڈی جی ٹی او پر مختلف ذرائع سے خوب دبائو بھی ڈالا مگر ان کی تمام چالیں بے سود رہیں یہی وجہ ہے یوبی جی کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم منیر اور ان کی ٹیم اب ڈی جی ٹی او کیخلاف جھوٹے اور من گھڑت پروپیگنڈے کرکے اپنی عزت بچانے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے ۔یو بی جی چڑھتے سورج کا پچاری ٹولہ ہے جس کا ثبوت گزشتہ حکومتوں کیلئے تعریفی بیانات و اشتہارات ہیں۔ ایس ایم منیر اقتدار پر موجود شخص کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کی خوشامد جبکہ نواز شریف اور زرداری کو گالیاں دیتے نظر آتے ہیں جبکہ نواز اور زرداری دور میں وہ اخباری بیانات ، اشتہارات اور خطوط کے ذریعے چابلوسی و خوشامدی کرتے نظر آتے تھے اور یہی سلسلہ تاحال جاری ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ 2019ء میں یو بی جی کے ناجائز مطالبات نہ ماننے پر ایس ایم منیر و ان کی ٹیم نے ایک پریس کے ذریعے موجودہ مشیر تجارت رزاق دائود کو عہدے سے برطرف کرنے کا مطالبہ کیا اور خصوصی مہم بھی چلائی تھی ۔ اب چونکہ رزاق دائود مشیر تجارت ہیں تو وہ ایک بار پھر ان کی چاپلوسی و خوشامد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ مرزا عبدالرحمن نے مزید کہا کہ ایف پی سی سی آئی کے الیکشن میں بزنس مین پینل کے امیدوار میاں ناصر حیات مگواورپینل کی واضح اکثریت سے کامیابی نے یو بی جی کے نام نہاد لیڈروں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں ۔ بزنس مین پینل کے چیئرمین میاں انجم نثار کی قیادت میں ایف پی سی سی آئی اور پاکستان کی بزنس کمیونٹی گزشتہ سال سے اپنی عزت و وقار حاصل کر رہا ہے یہی وجہ ہے کہ حکومتی ایوانوں سے لیکر اداروں تک کے سربراہ ایف پی سی سی آئی کی قیادت کیساتھ ملکر ملکی معیشت کی ترقی اور بزنس کمیونٹی کے مسائل کے حل کیلئے کوششیں کر رہے ہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایف پی سی سی آئی کے حالیہ الیکشن میں بزنس مین پینل نے کامیابی حاصل کی جبکہ یونائیٹڈ بزنس گروپ نے اپنے امیدواروں کو چور دروازے سے غیر قانونی و غیر آئینی طریقے سے میدان میں اتار جن میں سرفہرست ان کے صدارتی امیدوار خالد تواب کو دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں لانے کی کوشش کی مگر بی ایم پی نے ان کی یہ کوششیں قانونی طریقے سے ناکام بنادی ۔ یو بی جی نے ہمیشہ غیر قانونی ، غیر آئینی اور جعل سازی کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اس بار ان کی تمام چالیں ناکام رہیں۔ یو بی جی نے اپنے صدارتی امیدوار خالد تواب کو جس ایسوسی ایشن سے ایگزیکٹیو ممبر بنایا وہ اس کا اہل ہی نہ تھا اور اس ایسوسی ایشن نے جعلی و غیر قانونی طریقے سے خالد تواب کو ممبر بنا کر اقتدار میں لانے کی کوشش کی کیونکہ مذکورہ ایسوسی ایشن میں موصوف کاکئی سالوں سے کوئی کاروبار ہی نہیں ۔ بزنس مین پینل نے یو بی جی کی اس جعل سازی و چوری کیخلاف ڈی جی ٹی او کے پاس مقدمہ دائر کیا ہوا ہے مگر یو بی جی کے سرپرست ایس ایم منیر ، خالد تواب اور ان کی ٹیم تاحال ثبوت پیش نہ کر سکی اسی لئے اب یہ جھوٹے پروپیگنڈے و جانبداری کے الزامات کے ذریعے ڈی جی ٹی او پر دبائو ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں مگرجس طرح چور دروازوں سے فیڈریشن پر قبضہ کرنے کی کوشش میں یو بی جی کے رہنما گلزار فیروز، میاں زاہد حسین خالد اور خالد تواب کے بیٹے کو جس طرح جعل سازی و دونمبری کرنے پر ڈی جی ٹی او اور عدالت عالیہ نے نا اہل قرار دیا اسی طرح خالد تواب کو بھی نااہل قرار دیکر حق و سچ کی فتح ہوگی ۔ مفاد پرست ٹولہ جعل سازی کے ذریعے بزنس کمیونٹی کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی ناکام کوششو ں میں مصروف ہیں مگر بی ایم پی بزنس کمیونٹی کے حقوق کا سود اکرنے والے اور فیڈریشن کے فنڈ پر عیایشاں کرنے والوں کیلئے تمام چور دروازے بند کردے گی۔ انہوں نے یو بی جی کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم منیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موصوف خود ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں اور انہوں نے وزیر اعظم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان کی ایکسپورٹ کو کئی گناہ اوپر لے کر جائیں گے مگر مصروف کی نا اہلی کے باعث سابقہ ہدف سے بھی تقریباً50ارب تک کم ردیا ۔ سابق حکومتیں ایس ایم منیر جیسے نا اہل لوگوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو نہ سنبھال سکیںکیونکہ ایس ایم منیر مذکورہ عہدے کیلئے قانونی و آئینی طور پر اہل ہی نہ تھے ۔ اقتدار سے محروم یہ شکست خوردہ ٹولہ اس خواہش میں سرگرداں ہے کہ کسی طرح دوبارہ اقتدار میں آئیں اور بزنس کمیونٹی کے حقوق کا سود ا کرکے عیاشیاں کریں ۔ مرزا عبدالرحمن نے مزید کہا کہ بزنس مین پینل اور فیڈریشن کے قائدین بزنس کمیونٹی کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے موجودہ اور گزشتہ سال کے دوران بی ایم پی نے ایک پائی بھی فیڈریشن کی ذاتی مفاد کیلئے استعمال نہیں کی اور نہ ہی سرکاری دوروں میں فیڈریشن کا پیسہ ضائع کیاجس کے تمام تر ثبوت موجود ہیں ۔ مرزا عبدالرحمن نے وزیر اعظم عمران خان ، مشیر خزانہ شوکت ترین، مشیر تجارت رزاق دائود و دیگر وزراء و حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ فرض شناس، دیانتداراور حق و سچ پر مبنی فیصلے کرنے والے ڈائریکٹر جنرل ٹریڈ آگنائزیشن کے کردار کو سراہیں اور جھوٹے پروپیگنڈے ‘بے بنیاد و من گھڑت الزامات عائد کرنے والوں کیخلاف سخت قانونی کارروائی کرکے عبرت کا نشان بنایا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کی بہتری و بزنس کمیونٹی و کاروبار کی ترقی کیلئے حکومت ایف پی سی سی آئی کے ساتھ مشاور ت کرکے فیصلے کرے اور چھوٹے تاجروں کے تحفظات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں خصوصی ریلیف بھی دے ۔