غیرملکی امداد کی تفصیلات سے آگاہی کیلئے آئندہ اجلاس میں سیکرٹری اقتصادی امور کو طلب
امدادی پیکیج وزارتوں کے اللے تللوں کی نذر ہوگیا بلکہ رقوم دریا برد ہوگئیں۔ رانا تنویر حسین

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

پارلیمانی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کوویڈ کے حوالے سے 1240 ارب روپے کے  امدادی پیکج کی رقوم کی خلاف ضابطہ تقسیم کا نوٹس لیتے ہوئے پرفارمنس آڈٹ کا فیصلہ کرلیا، سیکرٹری خزانہ رقوم کے استعمال کی تفصیلات سے آگاہ  کرنے میں ناکام ہوگئے۔ پیکیج میں غیرملکی امداد کی تفصیلات سے آگاہی کیلئے آئندہ اجلاس میں سیکرٹری اقتصادی امور کو طلب کرلیا گیا، چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ امدادی پیکیج وزارتوں کے اللے تللوں کی نذر ہوگیا بلکہ رقوم دریا برد ہوگئیں، کوویڈ کے اس پیکیج میں  ٹیکس ریفنڈ ، یوٹیلٹی سٹورزپاسکو، تیل ، گیس، بجلی، پناہ گاہیں تک شامل کرلی گئیں جبکہ امداد کا   کوئی صاف شفاف طریقہ کاروضع نہ کیا گیا تھا  ۔ پارلیمانی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین  رانا تنویر حسین کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ 1240 ارب روپے کے  کوویڈ اقتصادی پیکیج کے بارے میں بریفنگ طلب کی گئی تھی ۔ 16ارب روپے   ڈیلی ویجز کو دینے کے طریقہ کار کے استفسار پر بھی حکام خاموش ہوگئے۔    یوٹیلٹی سٹورز کو  10ارب روپے ، پاور اینڈ گیس سبسڈی کیلئے  15ارب روپے  پٹرول، ڈیزل  کی مد میں 70ارب روپے، وزارت تجارت کو 16ارب روپے ، پاور ڈویژن کو 28ارب روپے ، نیشنل فوڈ سیکورٹی کو 15.6 ارب روپے  اور پاسکو کو 28کروڑ روپے  کویڈ فنڈز سے دے دئے گئے ۔ سیکرٹری خزانہ اور ایڈیشنل سیکرٹریز کمیٹی کے تسلی بخش جواب نہ دے سکے ۔  رانا تنویر حسین نے کہا کہ میں جانتا ہوں  ان لوگوں کو بھی پیسے ملے جو مستحق نہیں تھے۔ یوٹیلٹی سٹورز کو کس کھاتے میں کوویڈ میں شامل کرلیا گیا۔ اجلاس میں این ڈی ایم اے ،خزانہ  اور این سی او سی کے  حکام کو طلب کیا گیا تھا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس پیکیج کے تحت میڈیکل کور کو 8.4ارب روپے سے زائد دئیے گئے جبکہ  نیشنل ہیلتھ کو صرف ایک ارب 40کروڑ دئیے گئے۔ نور عالم نے کہاکہ میڈیکل کور کو اتنی بڑی رقم دی گئی جبکہ پورے ملک میں فرنٹ لائن کام کرنے والے  اداروں کو صرف 1ارب سے کچھ زائد دئیے گئے۔ حکام نے  انکشاف کیا کہ امدادی پیکیج سے  ایف بی آر نے 17ارب روپے  لے کر ریفنڈ واپس کیے۔ سیکرٹری خزانہ  امدادی رقم میں غیر ملکی  گرانٹ ، قرضے شامل ہونے کی تفصیلات سے لاعلم نکلے۔ رانا تنویر حسین نے کہاکہ پیکیج کے نام پر تمام وزارتوں کی موجیں لگ گئی تھیں۔ مالیاتی نظم و ضبط کہاں ہے۔ پاسکو، یوٹیلٹی سٹورز، پناہ گاہوں، گیس، بجلی کا کوویڈ سے کیا تعلق ہے۔ اخراجات کہاں سے آئے، ذرائع فنڈز کیا ہیں سیکرٹری خزانہ کنفیوژ نظر آتے ہیں۔شاہدہ اختر علی نے کہاکہ رقوم کی تقسیم میں عدم مساوات ہے۔ میڈیکل کور اور نیشنل ہیلتھ کو ملنے والے فنڈز کی نشاندہی  اس کی عکاسی کررہی ہے۔ سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ 50 ارب روپے کوویڈ کے حوالے   کھاد، کاٹن کی مد میں دئیے گئے،پاسکو کو بھی رقم دی گئی۔ رانا تنویر حسین نے کہاکہ لگتا یہی ہے کہ رقوم نالے میں پھینک دی گئیں۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ اس پیکیج کی جانچ پڑتال مکمل کرلی گئی ہے۔ رپورٹ صدر پاکستان کو بھیج دی گئی ہے۔ سردار ایاز صادق نے کہاکہ عام  آدمی کو کیا فائدہ ملا۔ رقوم کی تقسیم کے طریقہ کار پر سوالات ہیں۔ سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ اس بارے میں ای سی سی اور کابینہ نے فیصلے کیے تھے ہم نے رقوم تقسیم کیں۔ انہوں نے بتایا کہ 1240میں سے 693 ارب روپے 2019-20ء اور188ارب روپے 20-21ء میں خرچ کیے گئے ۔ 358 ارب روپے بچے ہوئے ہیں جوکہ  ویکسین کیلئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں وزارت صحت کو 150ملین ڈالر، این ڈی ایم اے کو 200ملین ڈالر دئیے گئے مگر وزارت صحت کی رقم بھی این ڈی ایم اے کو منتقل کردی گئی۔ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں سیکرٹری اقتصادی امورکوطلب کرلیا گیا ہے اور قرار دیا گیا ہے کہ پیکیج کی وزارتوں نے بندربانٹ کرلی۔ پیکیج سے 17ارب روپے لے کر ایف بی آر نے  اپنی آمدن ظاہر کردی۔ سیکرٹری صحت نے  ویکسین کی خریداری کے معاہدوں کے بارے میں کھلے اجلاس میں بریفنگ دینے سے معذرت کرلی اور کہاکہ ہم عالمی ضابطوں کے پابند ہیں ۔ پاکستان 4کروڑ ویکسین پہنچ چکی ہے اس میں290 ملین پاکستان نے خریدی۔ کمیٹی میں یہ بھی اعتراف کیا گیا کہ جاپان سے ملنے والی گرانٹ کا ایک پیسہ خرچ نہ ہوسکا۔ کمیٹی نے  کوویڈ اقتصادی پیکیج  کے بارے میں  متعلقہ وزارتوں کو ملنے والی رقوم  کی  پرفارمنس  جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا ہے اس حوالے سے  ہر وزارت کے سیکرٹری کو  جوابدہی کیلئے طلب کیا جائے گا۔ سیکرٹری خزانہ  نے تفصیلات میں بتایا کہ پیکیج کے تحت 16ارب روپے  انڈسٹری کو دئیے گئے۔ اس میں ڈیلی ویجز کی مدد شامل ہے۔  بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو145ارب روپے  وزارت صنعت کو  یوٹیلٹی سٹورز کیلئے  10ارب روپے ، پاور اینڈ گیس سبسڈی کیلئے  15ارب روپے  پٹرول، ڈیزل  کی مد میں 70ارب روپے، وزارت تجارت کو 16ارب روپے ، پاور ڈویژن کو 28ارب روپے ، نیشنل فوڈ سیکورٹی کو 15.6 ارب روپے  اور پاسکو کو 28کروڑ دئیے گئے۔1240 کے مجموعی پیکیج میں  سے  اب تک 693 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ 188 گزشتہ سال  خرچ ہوئے۔