اسلام آباد (ویب ڈیسک)
وزیر مملکت اطلاعات و نشریات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ پورے ملک میں سرکاری ار اضی کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے ۔ صوبہ سندھ کے علاوہ 20 اکتوبر تک ملک کے دوسرے حصوں میں سرکاری اراضی کی ڈیجیٹلائزیشن کا ہدف ہے، اس کے ذریعے سرکاری اراضی پر قبضوں کا راستہ ہمیشہ کیلئے روکا جاسکے گا۔ اسلام آباد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر مملکت اطلاعات و نشریات نے کہاکہ ماضی کی حکومتوں نے تعمیرات کے شعبے کو نظر انداز کیے رکھا۔ وزیراعظم عمران خان شعبہ تعمیرات کی ترقی پر خصوصی توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ حکومت نے شعبہ تعمیرات کے فروغ کیلئے خصوصی اقدامات اٹھائے ہیں ۔ ہماری حکومت آئی تو اس وقت تعمیرات کا شعبہ بند پڑا ہوا تھا کسی بھی ملک کی معیشت کو چلانے کیلئے تعمیراتی شعبے کا انتہائی اہم کردارہوتا ہے ۔ وزیراعظم نے اس شعبے کیلئے ایک خصوصی پیکیج متعارف کرایا اس پیکیج کے باعث ابھی تک پورے ملک میں شعبہ تعمیرات میں ایک ہزار ارب روپے کی سرمایہ کاری کے منصوبے منظور ہوچکے ہیں اس سے شعبہ تعمیرات سے منسلک صنعتوں میں 4100 ارب روپے کی معاشی سرگرمیاں فروغ پارہی ہیں جس سے سیمنٹ ،سریا اور دیگرتعمیراتی اشیاء کی فروخت میں اضافہ ہوگیا ہے ایک ہزار اربر وپے کی سرمایہ کاری سے پورے ملک میں 7 لاکھ نوکریاں پیدا ہوں گی۔ تعمیراتی شعبے سے بہت سے ورکروں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوگئے ہیں ۔ صرف پنجاب نے 373 ارب روپے کے 24 ہزار 400 مصوبے منظور کیے گئے ہیں جس سے 1900 ارب روپے کی معاشی سرگرمیاں فروغ پائیں گی 3 لاکھ 25 ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی۔ خیبرپختونخوا میں 74 ارب روپے کے سرمایہ کاری کے مصنوبے منظور کیے گئے ہیں جن سے 371 ارب روپے کی معاشی سرگرمیاں فروغ پائیں اور 64 ہزار نوکریاں پیدا ہوں گی۔ اسلام آباد میں 175 ارب روپے کے سرمایہ کاری کے منصوبے منظور کیے گئے ہیں۔ اس سے تقریباً ایک لاکھ 4 ہ زار نوکریاں پیدا ہوں گی۔ جبکہ صوبہ سندھ میں 267 ارب روپے کے سے رمایہ کاری کے منصوبے منظورہوئے ہیں جس سے 1300 ارب روپے کی معاشی سرگرمیوں کا آغاز ہوگا اور 2لاکھ نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ ایف بی آر کی ایگزمنشن سکیموں کے تحت491 ارب روپے کے منصوبے لوگوں نے رجسٹر کروائے ہیں ۔ سندھ حکومت کو 400 بڑے منصوبوں کیلئے درخواستیں مصول ہوئی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پچھلے 15ماہ میں 400 منصوبوں کی درخواستیں موصول ہونے کے باوجود صرف 90 منصوبے منظور کیے گئے ہیں باقی 300 سے زائد ایسے منصوبے ہیں جن سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری آئے گی اور کئی لاکھ نوکریاں پیدا ہوسکتی ہیں لیکن ان کی منظوری کا عمل کھٹائی میں پڑا ہوا ہے مگر سندھ بلڈنگ کنٹرول کا ادارہ دیمک کا شکار ہے شکایات یہ ہیں کہ جب تک فائل کو پہیے نہ لگائے جائیں منصوبے منظور نہیں ہوتے۔ جب تک کمیشن کی یقین دہانی نہ کرائی جائے صوبے منظور نہیں ہوتے۔ جہاں باقی تمام صوبے اپنے سسٹم کو اپ گریڈ کررہے ہیں ہم یہ بھی توقع کرتے ہیں سندھ حکومت اس پر خاص توجہ دے تعمیرات سے منسلک سرمایہ کاروں کیلئے سہولیات پیدا کرے وزیراعظم کو احساس ہے کہ نچلے طبقے کو کم لاگت کے گھر فراہم کیے جائیں۔وزیراعظم نے بینکوں کو پابند بنایا ہے کہ پونے چار سو ارب روپے اس سال دسمبر 31 تک کم لاگت ہائوسنگ کیلئے لوگوں کو دینا ہے۔ ابھی تک کم آمدن لوگوں کی کم لاگت کے گھروں کیلئے بینکوں کو 145 ارب روپے کی درخواستیں موصول ہوچکی ہیں جس میں سے اب تک بینک 45 ارب روپے کے قرضے منظور کرچکے ہیں اس میں سے ایک لاکھ پہلے گھروں کیلئے حکومت 3 لاکھ روپے کی سبسڈی دے گی اور ان کو کم سود پر دس،15 اور 20 سال مدت میں قرض کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ جو آدمی 15 ہزار کرایا ادا کرتا ہے وہی 15 ہزار وہ بینک کو قسط ادا کرے گا اس طرح ان کی چھت بھی اپنی ہوگی اور کرائے سے بھی بچ سکے گا، ابھی تک کم لاگت کے 20 ہزار گھرتعمیر کیے جاچکے ہیں اس میں اخوت جیسا ادارہ بھی ہمارے ساتھ کام کررہا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں مل کر کم لاگت کے 45 ہزار گھر تعمیر کررہی ہیں۔ نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کے تحت 70 ہزار کم لاگت شارٹ لسٹ ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ صوبہ سندھ میں 25 فارسٹ موجود تھے جن کا اب نام و نشان ہی نہیں ہے۔ پورے ملک کے اندر سرکاری اراضی کے ریکارڈ کی ڈیجیٹلائزیشن کا عمل تیزی سے جاری ہے۔صوبہ سندھ کے علاوہ 20 اکتوبر تک ملک کے دوسرے حصوں میں سرکاری اراضی کی ڈیجیٹلائزیشن کا ہدف ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے سرکاری اراضی پر قبضوں کا راستہ ہمیشہ کیلئے روکا جاسکے گا۔