اگر وہ ذاتی حیثیت میں اس کیس سے الگ ہونا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی ہے،جسٹس اعجاز الاحسن کا قیوم صدیقی سے استفسار
صحافیوں کے مسائل موجود ہیں ایک صحافی کو شیخ رشید سے سوال کرنے پر ملازمت سے نکال دیا ، صدر پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ
صحافیوں کے تحفظ کی ضمانت آئین دیتا ہے، کسی کو دھمکیاں دی جارہی ہیں تو عدالت اس کاتحفظ کرے گی،جسٹس اعجاز الاحسن
کیس کی مزید سماعت 15ستمبر تک ملتوی کردی گئی
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
سپریم کورٹ نے صحافیوں کوہراساں کرنے کیخلاف ازخودنوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے، آئی جی اسلام آباد ،چیئرمین پیمرا اور اٹارنی جنرل ،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سمیت تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو طلب کر لیا۔عدالت نے صحافیوں سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری کارروائی کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں۔پیر کو جسٹس اعجازا لاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی ،کیس کی سماعت کا آغاز ہواتو صحافی عبدالقیوم صدیقی، اسد طور اور عامر میر نے اپنی درخواستیںدرخواستیں واپس لینے کے لئے متفرق درخواستیں دائر کیں ، عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ وہ عدالتی طریقہ کار کے مطابق متعلقہ دفتر میں اپنی درخواستیں جمع کرائیں ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے درخواست گزارعبدالقیوم صدیقی سے کہاکہ آپ نے آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت درخواستیں دائر کیں اس پر چیف جسٹس نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے ازخود نوٹس لے لیا ،ہم اس معاملے میں مطمئن ہیں کہ لوگوں کے حقوق متاثر ہورہے ہیں ،ہم آپ کو جبراًنہیں کہہ سکتے کہ اس کیس کی پیروی کریں لیکن اب چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا ہے تو تین رکنی بینچ اس کیس کو آگے بڑھائے گا عدالت ریاست کے متعلقہ حکام کو طلب کرکے صورتحال کے بارے میں سوال کرے گی اور متاثرین کو بھی سنا جائے گا کیونکہ عدالت نے خود کو مطمئن کرنا ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی۔جسٹس اعجازالاحسن نے قیوم صدیقی سے کہا کہ اگر وہ ذاتی حیثیت میں اس کیس سے الگ ہونا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی ہے لیکن کیس واپس لینے کی درخواست مروجہ طریقہ کار سے عدالت میں جمع کرائیں ۔ اس دوران پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے صدر امجد نذیر بھٹی پیش ہوئے توانہوں نے کہاکہ صحافیوں کے مسائل موجود ہیں ایک صحافی کو شیخ رشید سے سوال کرنے پر ملازمت سے نکال دیا گیا، کئی اداروں میں ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل رہیں اور کئی مالکان پر دباؤ ہوتا ہے جس سے صحافیوں کی آزادی متاثر ہورہی ہے۔ عدالت نے کہاکہ 26اگست کو ہونے والی سماعت کے دوران آپ نے کچھ کہا تھا کیا آپ اس کیس کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں ، عدالت نے آئین کے تحت حلف لیا اور آئین کا تحفظ عدالت کی ذمہ داری ہے اس معاملے میں اب آئین کے آرٹیکل 184(3)کا اطلاق ہوچکا ہے کیونکہ عدالت کو لگا ہے کہ حالات ایسے ہیں اور بنیادی حقوق متاثر ہورہے ہیں ۔ اب کوئی اس معاملہ میں پیش ہو یا نہ عدالت آگے بڑھائے گی ۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ میڈیا قومی کی آواز ہے ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے تحفظ کی ضمانت آئین دیتا ہے، اگر کسی کو دھمکیاں دی جارہی ہیں یا کسی کو خطرہ ہے تو عدالت اس کاتحفظ کرے گی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا ہے کہ صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سپریم کورٹ مداخلت کریگی ۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین پاکستان میڈیا کو آزادی فراہم کرتا ہے، آزادی صحافت کا ذکر تو بھارتی اور امریکی آئین میں بھی نہیں،کوئی قانون آئین کے آرٹیکل 19 سے متصادم ہوا تو اسے کالعدم قرار دیدیں گے، کمرہ عدالت خالی بھی ہوا توبھی اس معاملے کی سماعت کرینگے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ تنخواہوں اور چھانٹیوں کے معاملے پر بھی عدالت صحافیوں کیساتھ کھڑی رہی، صحافیوں کو گرفتاری کے حوالے سے تحفظ حاصل ہے ، جہاں بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے عدالت وہاں صحافیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس دوران امجد بھٹی نے موقف اپنایاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ معاملہ زیر التوا ہے عدالت چاہے تو معاملہ وہاں بھیج دے اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ہائیکورٹ میں زیرسماعت مقدمات کی رپورٹ بھی طلب کرلیتے ہیں ، ہم ایک مفصل مشق کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اب وقت آچکا ہے کہ سپریم کورٹ سارے معاملے کو دیکھے کیونکہ اس ملک کے عوام اور صحافیوں کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہئیں، پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ ہمیں اس حوالے سے اعداوشمار دے جن صحافیوں کی درخواستوں پر کسی محکمے میں کارروائی نہیں ہوئی تو ہم اس کے ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیں گے ،ریاست کے ادارے صحافیوں سمیت عوام کو تحفظ دینے کے پابند ہیں ۔ بعد ازاں عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے، آئی جی اسلام آباد ،چیئرمین پیمرا اور اٹارنی جنرل ،تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو طلب کر لیا۔عدالت نے صحافیوں سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ میں جاری کارروائی کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں اور کیس کی مزید سماعت 15ستمبر تک ملتوی کی تو بینچ کے رکن جسٹس قاضی محمد امین نے کہا کہ جس طرح بطور جج ہم سیاست نہیں کر سکتے،اسی طرح صحافی بھی سیاست نہیں کرسکتا ،صحافی کا کام صحافت کرنا ہے، صحافت اور آزادی اظہار رائے تہذیب کے دائرے میں ہونا چاہئے،ججز تاریخ کے ہاتھوں میں ہیں چند افراد کے نہیں۔