اسلام آباد (ویب ڈیسک)

محسن پاکستان و ملک کو ایٹمی قوت بنانے والے معروف سائنسدان  ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے خود سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلنے کے بعد وضاحتی ویڈیو جاری کرتے ہوئے اپنے روبہ صحت ہونے کی تصدیق کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے متعلق 9 ستمبر کے بعد جعلی خبریں پھیلنا شروع ہوئیں اور ان کی پرانی یا ایڈٹ شدہ تصاویر اور ویڈیوز کو شیئر کرتے ہوئے ان کی صحت اور زندگی سے متعلق افواہیں پھیلائی گئیں۔خود سے متعلق افواہیں پھیلنے کے بعد ہفتہ کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے میڈیا کو جاری کردہ ویڈیو میں واضح کیا کہ وہ روبہ صحت ہیں۔میڈیا کو جاری کی گئی ویڈیو میں عبدالقدیر خان کو کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ ان کے بولنے کے انداز سے واضح ہوتا ہے کہ وہ روبہ صحت ہیں۔مختصر ویڈیو میں محسن پاکستان نے بتایا کہ انہیں بھی ان سے متعلق پھیلنے والی غلط خبروں کے بعد فون کالز آئیں، جن سے وہ پریشان ہوگئے۔انہوں نے بتایا کہ وہ بلکل ٹھیک ہیں اور انہیں خدا پر یقین ہیکہ وہ مزید کئی سال تک انہیں زندگی دیں گے، تاکہ وہ اپنے دشمنوں کومزید جلا سکیں۔انہوں نے اپنے انتقال سے متعلق پھیلنے والی افواہوں پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک دشمن عناصر ان سے متعلق غلط خبریں پھیلا رہے ہیں۔انہوں نے قوم کو پیغام دیاکہ وہ ان سے متعلق پھیلنے والی غلط خبروں پر یقین نہ کریں، وہ روبہ صحت ہیں اور بلکل ٹھیک ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے ایک ایسے وقت میں افواہیں پھیلنا شروع ہوئیں جب کہ کچھ دن قبل ہی ان میں کورونا کی تشخیص ہوئی تھی۔ان میں گزشتہ ماہ 26 اگست کو کورونا کی تشخیص ہوئی تھی، جس کے بعد ان کی طبیعت بگڑ جانے پر انہیں یکم ستمبر کو کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ہسپتال منتقلی کے بعد ان کی طبیعت سے متعلق غلط خبریں پھیلنا شروع ہوئیں، تاہم 11 ستمبر کو ان ڈاکٹر عبدالقدیر کی جانب سے میڈیا کو جاری کردہ ویڈیو میں انہیں صحت مند حالت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ان سے متعلق غلط خبریں پھیلنے کے بعد 11 ستمبر کو ٹوئٹر پر ان کا نام بھی ٹرینڈ کرنے لگا، جہاں کئی افراد نے ان کے انتقال کی جھوٹی خبریں پھیلائیں، وہیں متعدد صحافیوں، نامور سیاسی و سماجی شخصیات سمیت نشریاتی اداروں نے ان کے روبہ صحت ہونے سے متعلق بھی بتایا۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پاکستانی ایٹم بم کا خالق بھی قرار دیا جاتا ہے، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان کی خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے 14 اگست 1996 کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز جبکہ 1989 میں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی عطا کیا تھا۔انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران ایک درجن سے زائد طلائی تمغے بھی حاصل کیے جب کہ انہیں متعدد ملکی و عالمی خصوصی ایوارڈز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ان کی خدمات کے عوض 1993 میں انہیں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند بھی دی تھی جب کہ ڈاو یونیورسٹی ہسپتال میں ان کے نام سے سینٹر کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے.