PRIME MINISTER IMRAN KHAN INTERACTS WITH CHINESE FOREIGN MINISTER MR. WANG YI ON THE SIDELINES OF SCO SUMMIT 2021 IN DUSHANBE ON SEPTEMBER 17, 2021.

افغانستان کو انسانی ، خوراک، بنیادی اشیا اور دیگر چیلنجز کا سامنا ہے، تنہا چھوڑا گیا تو مختلف بحران ایک ساتھ جنم لیں گے
پاکستان افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتا اور وہاں پر امن کا خواہاں ہے، ہم نے ہمیشہ یکساں موقف رکھا
اب افغان عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کا وقت ہے، طالبان کو افغانستان میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے
مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، آزاد خود مختار فلسطین کی حمایت کرتے ہیں
ہماری معیشت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نقصان پہنچا، پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا
حکومت نے اپنی توجہ جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس پر منتقل کر دی ، ہمارے نئے معاشی تحفظ کے تین بنیادی ستون ہیں، امن ، ترقیاتی شراکت داری اور رابطہ
تجارت، سرمایہ کاری اور روابط کے فروغ کیلئے شنگھائی تعاون تنظیم اہم پلیٹ فارم ہے،وزیر اعظم نے آگے بڑھنے کے لیے پانچ نکاتی راستے کی تجویز پیش کی
ایس سی او خطے میں ریل، سڑک، سمندری اور ہوائی روابط کا جال بچھانے سے تجارت، توانائی کے بہائو اور لوگوں سے لوگوں کے تبادلے کے نئے دور کا آغاز ہوگا
علاقائی ریاستیں موثر کثیر الجہتی نظام، اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں بشمول ریاستوں کی مساوات، خودمختاری اور عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کی تصدیق کریں
وزیر اعظم کا شنگھائی تعاون تنظیم کے 20ویں سربراہی اجلاس سے خطاب

دوشنبے (ویب ڈیسک)

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتا اور وہاں پر امن کا خواہاں ہے،عالمی برادری آگے بڑھے،افغانستان کو ا س کے حال پر نہیں چھوڑا جاسکتا،خطے کو کئی چیلنجز درپیش ہیں،افغانستان کا مسئلہ سب کو مل کر حل کرنا ہوگا، اب افغان عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کا وقت ہے، طالبان کو افغانستان میں کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے ، مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے، آزاد خود مختار فلسطین کی حمایت کرتے ہیں،ہماری معیشت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نقصان پہنچا، پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا، حکومت نے اپنی توجہ جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس پر منتقل کر دی ہے، ہمارے نئے معاشی تحفظ کے نمونے کے تین بنیادی ستون ہیں، امن ، ترقیاتی شراکت داری اور رابطہ۔شنگھائی تعاون تنظیم کے 20ویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ تجارت،

سرمایہ کاری اور روابط کے فروغ کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم اہم پلیٹ فارم ہے۔ افغانستان کی حقیقت دنیا کو تسلیم کرنا ہو گی، ہم نے افغانستان سے متعلق ہمیشہ یکساں موقف رکھا، وہاں طالبان کی عبوری حکومت آ چکی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے، پاکستان سمجھتا ہے کہ افغان عوام اپنے فیصلے خود کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کو انسانی بحران، خوراک، بنیادی اشیا اور دیگر چیلنجز کا سامنا ہے، افغانستان کو اس کے اپنے حال پر چھوڑا نہیں جاسکتا، افغانستان کوتنہا چھوڑا گیا تو مختلف بحران ایک ساتھ جنم لیں گے۔موجودہ صورتِ حال میں افغانستان کو عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے پناہ گزینوں کو تحفظ چاہیئے، جس کے لیے دنیا بھر کو آگے آنا ہو گا۔ عمران خان نے کہا کہ طالبان کے قبضے اور غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں ایک نئی حقیقت سامنے آئی، یہ سب کچھ خونریزی، خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کے بڑے پیمانے پر ہجرت کے بغیر ہوا۔انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی برادری کے اجتماعی مفاد میں ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ

 

افغانستان میں دوبارہ کوئی تنازع نہ ہو اور سکیورٹی کی صورتحال مستحکم ہو۔ عمران خان نے کہا کہ انسانی بحران کو روکنا اور معاشی بحران یکساں طور پر فوری ترجیحات ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سابقہ حکومت غیر ملکی امداد پر بہت زیادہ انحصار کرتی تھی اور اسے ختم کرنا معاشی تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو انسانی امداد کے لیے مدد کو متحرک کرنے پر سراہا اور کہا کہ پاکستان بھی انخلا کی کوششوں میں مدد فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ عالمی برادری کی مثبت مصروفیت انتہائی اہم ہے ۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں 40 سال سے جاری جنگ کو بالآخر ختم کرنے کا ایک نادر موقع ہے، اس لمحے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس نازک موڑ پر منفی باتیں پھیلانا یا پروپیگنڈے میں ملوث ہونا دانشمندی نہیں ہوگی، یہ صرف امن کے امکانات کو کمزور کرنے کا کام کرے گا، افغانستان میں پائیدار امن اور استحکام سے بالآخر خطے کو فائدہ پہنچائے گا۔ عمران خان نے کہا کہ بد قسمتی سے دہشت گردی کو مذہب سے جوڑا جاتا ہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80ہزار سے زائد جانیں قربان کیں، ہماری معیشت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نقصان پہنچا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں خطے میں عالمی چیلنجز کا سامنا ہے اور ہم نے ملکر ان مسائل سے نمٹنا ہے، موسمیاتی تبدیلی دنیا کیلئے بڑا چیلنج ہے، خطے پر عالمی حدت اور ماحولیاتی تبدیلی کے منفی اثرات مرتب ہوئے، ہم نے بہتر ماحول کے فروغ کے لیے شجر کاری مہم شروع کی، ہم نے ملک کے ہر اس حصے میں پودے لگائے جہاں سبزہ نہیں تھا، ہماری شجر کاری مہم کو دنیا کے مختلف ممالک میں سراہا گیا۔ عمران خان نے کہا کہ کورونا وائرس میں جہاں دنیا کو کئی چیلنجز کا سامنا رہا ، پوری دنیا کی معیشت کورونا سے متاثر ہوئی، پاکستان نے صحت کے ساتھ ساتھ معاشی صورتحال پر نظر رکھی، پاکستان دنیا کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کی وبا کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرتا رہے گا،ہمیں کووڈ 19 وبائی مرض کے منفی معاشی اثرات کو کم کرنے کے لیے اپنی اجتماعی کوششوں کو بھی مضبوط کرنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپنی توجہ جیو پولیٹکس سے جیو اکنامکس پر منتقل کر دی ہے، ہمارے نئے معاشی تحفظ کے نمونے کے تین بنیادی ستون ہیں، امن ، ترقیاتی شراکت داری اور رابطہ ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے وسطی ایشیا میں اپنے بہت سے شراکت داروں کے لیے سمندر کا مختصر ترین راستہ پیش کیا۔انہوں نے گزشتہ جولائی میں تاشقند میں علاقائی رابطے پر ایک کانفرنس کی میزبانی کرنے پر ازبکستان کے صدر کی تعریف کی۔ وزیر اعظم نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایس سی او خطے میں ریل، سڑک، سمندری اور ہوائی روابط کا جال بچھانے سے تجارت، توانائی کے بہائو اور لوگوں سے لوگوں کے تبادلے کے نئے دور کا آغاز ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ یہ رابطے خطے اور اس سے آگے ترقی اور خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔وزیر اعظم نے ایس سی او سربراہی اجلاس میں آگے بڑھنے کے لیے پانچ نکاتی راستے کی تجویز پیش کی۔انہوں نے علاقائی ریاستوں پر زور دیا کہ وہ موثر کثیر الجہتی نظام اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں بشمول ریاستوں کی مساوات، خودمختاری اور عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کی تصدیق کریں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں علاقائی رابطے کے ایجنڈے کو بھی آگے بڑھانا چاہیے۔آخر میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو پہچاننا چاہیے اور ان کے بااختیار بنانے کے تمام ممکنہ راستوں کو تلاش کرنا چاہیے۔ا جلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔قبل ازیں ایس سی او اجلاس کے مقام نوروز پیلس آمد پر تاجکستان کے صدر امام علی رحمان نے وزیراعظم کا پرتپاک استقبال کیا۔