راولپنڈی (ویب نیوز )
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) نے پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے مجوزہ قومی لائسنسنگ امتحان کو فی الفور ختم کرنے اور ایم ڈی کیٹ کے ضمن میں پری میڈیکل طلبہ کی شکایات کو فوری طور پر دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیما نے زور دیا کہ پاکستان میڈیکل کمیشن محض امتحانی بورڈ بننے کی بجائے ریگولیٹری اتھارٹی کے طور پر کام کرے اور فیس سٹرکچر، طلباءکی تعداد کے تعین،، نجی میڈیکل کالجز اور منسلک ٹیچنگ ہسپتالوں میں فیکلٹی اور سہولیات کی کمی کے معاملات پر اپنا کردار ادا کرے۔ اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ ملکی صحت عامہ کے نظام میں کارپوریٹائزیشن کا دروازہ کھول دیا گیا ہے اور عوام کی صحت کو پرائیویٹ مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنا دیا گیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار پیما پنجاب کے صدر ڈاکٹر شبیر احمدنے دیگر عہدیداران ڈاکٹر افتخار برنی جنرل سیکرٹری پیما پنجاب اور ڈاکٹر محمد افتخار صدر
پیما راولپنڈی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر شبیر احمد نے کہا کہ پاکستان میڈیکل کمیشن میں شفافیت، میرٹ اور احتساب کا فقدان ہے۔ اس کے موجودہ ڈھانچے میں کچھ ایسے افراد کو انتہائی بااختیار بنایا گیا ہے جو کہ منتخب نہیں ہیں اور ان میں مطلوبہ اہلیت، صلاحیت ، وژن اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔حیران کن طور پر ایسے لوگ بھی کمیشن کے ایگزیکٹو بورڈ میں شامل ہیں جن کا شعبہ طب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
ڈاکٹر افتخار برنی نے کہا کہ ملک میں صحت عامہ کے نظام اور میڈیکل ایجوکیشن میں بہتری کے لیے قومی سطح پر شعبہ طب کے تمام فریقین کے مابین ڈائیلاگ اور مشاورت کا سلسلہ ہونا چاہیے جس پر صدر کمیشن ڈاکٹر ارشد تقی نے پیما ویبینار میں اتفاق بھی کیا تھا لیکن اس پر عملاً کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
پیما عہدیداران نے مطالبہ کیا کہ تمام میڈیکل کالجز کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ تمام طلبہ کی ہاؤس جاب اور پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے لیے ٹیچنگ ہسپتال کی ضرورت کے مطابق فیکلٹی اور ضروری سہولیات کی موجودگی یقینی بنائیں۔ تمام ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہ
سپتالوں کو ٹیچنگ ہسپتالوں کے طور پر کام کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔ پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کے عمل میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جائے اور ٹریننگ کرنے والے طلبہ کو سہولیات فراہم کرنی چاہییں۔ مزید برآں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی رجسٹریشن اور غیر ملکی میڈیکل کالجز میں انرولمنٹ پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔