• چیئرمین ، ڈپٹی چیئرمین اور ارکان سینیٹ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق بھی منظور کر لیے گئے ۔
  • تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان نے انتخابی ایکٹ میں ترمیم کو مخصوص شخصیت کو فائدہ پہنچانے کا بل قرار دے کر مسترد کر دیا
  • انفرادی مفاد کے لیے قانون سازی کا کوئی جواز نہیں ہے پارلیمنٹ کو اس سے گریز کرنا چاہیے مشتاق خان
  •  قانون سازی مجموعی مفاد عامہ کے تحت ہوتی ہے ۔
  • اپوزیشن لیڈر شہزاد وسیم
  •  ایوان  میں  حیران کن طور پر  بجٹ 2023-24 ء پر بحث کو موخر کردی گئی
  •  قانون سازی کے سلسلے میں اضافی ایجنڈا لیا گیا

اسلام آباد (ویب نیوز)

سینیٹ میں جمعہ کو  ارکان اسمبلی کی کسی بھی جرم میں  نا اہلیت کی پانچسالہ مدت سمیت چیئرمین ، ڈپٹی چیئرمین اور ارکان سینیٹ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق چار الگ الگ بلز منظور کر لیے گئے ۔ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے ارکان نے انتخابی ایکٹ میں ترمیم کو مخصوص شخصیت کو فائدہ پہنچانے کا بل قرار دے کر مسترد کر دیا اور واضح کیا ہے کہ کسی کے انفرادی مفاد کے لیے قانون سازی کا کوئی جواز نہیں ہے پارلیمنٹ کو اس سے گریز کرنا چاہیے ۔ قانون سازی مجموعی مفاد عامہ کے تحت ہوتی ہے ۔ ایوان نے حیران کن طور پر وفاقی بجٹ 2023-24 ء پر بحث کو موخر کرتے ہوئے قانون سازی کے سلسلے میں اضافی ایجنڈا لیا گیا اجلاس چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا ۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے واضح کیا کہ کسی کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی ہوئی ہے تو پارلیمنٹ کو اس کے ازالے کو یقینی بنانا چاہیے ۔ پارلیمان اپنا اختیار استعمال کر رہا ہے اس موقع پر سینیٹر دلاور خان کو الیکشن ایکٹ 2017 ء میں ترمیم کا بل پیش کرنے کے لیے فلور دے دیا گیا  ن لیگ کے سینیٹر حافظ عبدالکریم بھی محرک میں شامل ہیں ۔ بل کے تحت پارلیمنٹیرین کی کسی بھی جرم میں  نا اہلی کی مدت پانچ سال ہو گی ۔ اسی طرح صدر کی بجائے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہو گا ۔ اپوزیشن لیڈر شہزاد وسیم اور جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان نے بل کی مخالفت کی ۔ اپوزیشن جماعتوں نے قرار دیا کہ کسی کو انفرادی فائدہ پہنچانے کے لیے قانون سازی کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ سینیٹر مشتاق احمد خآن نے کہا کہ عوامی مسائل اور مفاد عامہ کی قانون سازی نظرانداز ہو رہی ہے ۔ مخصوص شخصیات کو فائدہ پہنچانے کے لیے پارلیمان کے اس فلور کو استعمال کیا جا رہا ہے ۔ عوام کے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اور کسی میں اس کا احساس تک نظر نہیں آتا ۔ اس دوران چیئرمین سینیٹ نے بل کی شقوار منظوری حاصل کی ۔ بل کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا  ۔سینیٹ نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل کثرت رائے سے منظور کرلیا، انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مل گیا۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں ترمیم کی گئی ہے، جس کے بعد عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخیں دینے کا اختیار الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مل گیا۔ترمیم کے تحت الیکشن کمیشن اب الیکشن پروگرام میں ترمیم کر سکے گا اور نیا الیکشن شیڈول یا نئی الیکشن تاریخ کا اعلان کرسکے گا۔باپ پارٹی کے سینیٹر منظور کاکڑ نے کہا کہ چاہتے ہیں یہ بل متفقہ طور پر منظور کیا جائے پارلیمنٹ کے اختیارات پارلیمنٹ میں ہی رہیں۔مولانا عبدالغفور حیدری کا کہنا ہے کہ آئین کہتا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، اگر ہر ادارہ اپنے اپنے طور پر سپریم ہوگا تو نظام نہیں چلے گا۔سینیٹ نے کہدہ بابر کی جانب سے پیش کئے گئے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور اراکین کی تنخواہ اور مراعات سے متعلق بلز بھی منظور کرلیے۔سینیٹر کہدہ بابر کا بل میں کہنا ہے کہ چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور ارکان سینیٹ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق بل سے قومی خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے جو نیب قانون چیلنج کیا اسی قانون کے تحت ریلیف کیلئے درخواستیں دی ہیں۔سب سے پہلا فائدہ بھی نیب قانون میں ترامیم کا سابق وزیر اعظم کو مل رہا  ہے ۔اعظم  نذیر تارڑ نے بتایا کہ 1973میں الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے قانون میں الیکشن کمیشن کو اختیار دیا گیا تھا ، ضیا الحق نے ترمیم کردی کہ الیکشن کی تاریخ صدر دے گا، خصوصی پارلیمانی کمیٹی نے ترمیم کا جائزہ لیا اور اسکی منظوری دی تھی۔اپوزیشن لیڈر شہزاد وسیم نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کو بلڈوز کیا جارہا ہے، قانون کے مطابق الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر دے سکتے ہیں، اس حوالے سے پہلے سے قانون موجود ہے، الیکشن کمیشن کو مکمل اختیار دینا مناسب نہیں۔  سینیٹر دلاور خان نے انتخابی ایکٹ میں مزید ترمیم پیش کی جس کے تحت نا اہلیت کی مدت پانچ سال مقرر کر دی گئی ہے ترمیم میں کہا گیا ہے جس جرم  کی سزا کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا وہ نااہلی پانچ سال سے زائد نہیں ہو گی ۔ الیکشن ایکٹ کی شقوں  ، اہلیت اور نا اہلیت سے متعلق سیکشن 232 میں ترمیم کی گئی ہے اور کہا گیا ہے اہلیت اور نااہلیت کا طریقہ کار اور مدت ایسی ہو جیسی آئین کے آرٹیکل 62-63 فراہم کیا گیا ہے جہاں آئین میں اس کے لیے کوئی طریقہ کار طریقہ کا مدت فراہم نہیں کی گئی اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی ۔ سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ یا کسی بھی عدالت کے فیصلے آرڈر یا حکم کے تحت سزا یافتہ شخص فیصلے کے دن سے پانچ سال کے لیے نا اہل ہو سکے گا ۔ آئین کے آرٹیکل 62 کی کلاز ون ایف کے تحت پانچ سال سے زیادہ کی نا اہلی کی سزا نہیں ہو گی اور متعلقہ شخص پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہو گا ۔ مراعات سے متعلق بلز کے تحت ارکان سینیٹ کو سفری الاؤنس کے تحت دس روپے فی کلو میٹر کی بجائے تیس روپے فی کلو میٹر ملیں گے  ۔ حکومت کو سینیٹرز کی سفری الاؤنسز کی مد میں سالانہ تقریبا دس کروڑ روپے ادا کرنے پڑیں گے تاہم بل کے محرک سینیٹر کہدہ بابر کا موقف ہے نہ اس بل سے ہماری تنخواہوں پر کوئی فرق پڑے گا اور نہ خزانے پر کوئی اثر پڑے گا  ۔ بلز اب قومی اسمبلی کو ارسال کئے جائیں گے چیئرمین سینٹ ڈپٹی چیئرمین اور ارکان سینیٹ کی تنخواہوں مراعات سے بلز بھی اضافی ایجنڈے کے تحت لائے گئے۔