کھاد کی برآمد سے کروڑوں ڈالر کا زرِ مبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے،عمران احمد

2021میںکھاد کا شعبہ ملکی تجارتی خسارہ کم کرنے میں3 ارب ڈالر سے زائد کا حصہ ڈالے گا،چیف فنانشل آفیسر اینگرو

کراچی (ویب ڈیسک)

پاکستان اپنی یوریا کی مقامی ضرورت پوری کرنے کے بعداضافی یوریا کی برآمد سے تقریباً 700ملین ڈالر سے زائد زرِ مبادلہ کماسکتاہے۔ پاکستان کی یوریا کی پیداواری صلاحیت 7ملین ٹن ہے جبکہ ملک میں یوریا کی کھپت تقریباً 6.2ملین ٹن ہے۔ اگر حکومت فرٹیلائزرز انڈسٹری کو اضافی یوریا برآمد کرنے کی اجازت دے تو پاکستان 700ڈالر فی ٹن کی بین الاقوامی قیمت کے حساب سے 0.7ملین ٹن یوریا برآمد کرکے 700ملین ڈالر سے زائد کا زرِ مبادلہ کماسکتاہے۔ اینگرو فرٹیلائزرز کے چیف فنانشل آفیسر عمران احمد کے مطابق فرٹیلائزر پالیسی2001کے تحت فرٹیلائزر انڈسٹری نے گزشتہ 10سال میں اپنی پیداواری صلاحیت میں توسیع اور پلانٹس اپ گریڈیشن کی مد میں 162ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جس سے پاکستان کو یوریا کی پیداوار میںخود کفیل ہونے میں مدد ملی اور اس کے نتیجے میںکرونا کی وجہ سے یوریا کی عالمی قیمتوں میں ہونے والے بے پناہ اضافہ کے اثرات سے پاکستان کے کسان محفوظ رہے ۔ انہوں نے بتایاکہ گذشتہ سال سے اب تک بین الاقوامی مارکیٹ میں کھاد کی قیمتیں86فیصد تک بڑھ چکی ہیںلیکن اس کے مقابلے میںمقامی یوریا انڈسٹری درآمدی یوریاکے مقابلے میں ملک کے کسانوں کو5000روپے کی نمایاں رعایت کے ساتھ یوریا کی فی بوری 1750روپے میں فراہم کررہی ہے جبکہ درآمدی یوریا کی فی 40کلوگرام بوری کی قیمت 7000روپے ہے ۔  انہوں نے بتایاکہ کھاد کی صنعت نے یوریا کی مناسب اور سستی فراہمی کے ذریعے پاکستان کی فوڈ سیکوریٹی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اس وقت حکومت فرٹیلائزر انڈسٹری کو فیڈ گیس کی مد میں842روپے فی بیگ سبسڈی فراہم کررہی ہے جبکہ مقامی فرٹیلائزر انڈسٹری بین الاقوامی قیمتوں کے مقابلے میں 5000روپے فی بیگ کی چھوٹ کے ذریعے کسانوں کو چھ گنا زیادہ فائدہ دے رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ درآمدی متبادل کے ذریعے ، کھاد کا شعبہ 2021میںملک کا تجارتی خسارہ کم کرنے کیلئے تین ارب ڈالر سے زائد کا حصہ ڈالے گا ۔ نمایا ں طور پر کم قیمتوں کے نتیجے میں مقامی کھاد کی صنعت 2021میں کسانوں کو 363ارب کے اضافی بوجھ سے بھی بچائے گی ۔انڈسٹری کو ڈی ریگولیٹ کرنے اور تمام مینوفیکچرز بشمول مقامی گیس اور درآمد شدہ ایل این جی پر چلنے والے پلانٹس کیلئے گیس کے وزن کی اوسط قیمت متعارف کرانے سے حکومت زیادہ آمدنی حاصل کرکے ملک کے مالی عدم توازن کو کم کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے تقریباً 90فیصد کسان12.5ایکڑسے کم سائز کے ساتھ 48فیصد زرعی زمین کے مالک ہیںاور حکومت کھاد کی صنعت سے گیس کی مدمیں حاصل ہونے والی89ارب روپے کی آمدنی سے چھوٹے زمینداروں کوتقریباً65ارب روپے کی ٹارگٹڈ سبسڈی فراہم کرسکتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ پاکستان کی کھاد کی صنعت بین الاقوامی طور مسابقتی ہے اور بغیر کسی سبسڈی کے مکمل طور پر غیر کنٹرول شدہ ماحول میں بھی ترقی کرسکتی ہے۔تاہم اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مقامی طور پر تیار کردہ یوریا درآمدی یوریا کی قیمت پر دستیاب ہوگی جس سے زرعی پیداوار اور کسانوں کی آمدنی خاص طو پر نچلے طبقے کو بہت بڑا دھچکا لگے گا ۔اس خطرے کو کم کرنے کیلئے حکومت چھوٹے کسانوں کیلے اسمارٹ سبسڈی میکانزم نافذ کرسکتی ہے۔