جولائی 2020اور جون 2021کے درمیان خوراک کی عالمی قیمتوں میں 34فیصد کا اضافہ ہوا ہے،مقامی طور پر دستیاب یوریا بین الاقومی یوریا کی مقابلے میں 7500روپے فی بیگ سستی ہے، پریس کانفرنس

کراچی  (ویب ڈیسک)

کھاد کی مقامی صنعت بین الاقوامی قیمتوں کے مقابلے میں یوریا کی مناسب اور سستی فراہمی کی ذریعے پاکستان میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار اینگرو فرٹیلائزر کے سی ایف او عمران احمد نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ  حکومت کو درپیش بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے ۔تاہم خوراک کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان میں نیانہیں کیونکہ تیل کی قیمتوں میں اضافے ، سپلائی چین میں خلل اور ناموافق موسمی حالات کی وجہ سے جولائی 2020اور جون 2021کے درمیان خوراک کی عالمی قیمتوں میں 34فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹس کے مطابق عالمی سطح پر اشیائے خوردنوش کی قیمتیں دہائی کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں جس کا اثر مقامی مارکیٹ پر بھی پڑا ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یوریا کی قیمتوں کا اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں اضافے پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ کسان کے مجموعی اخراجات میں سے صرف 2.6فیصد  یوریا کی خریداری پرخرچ ہوتاہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ یوریاکی قیمت میں 50روپے فی بیگ اضافے سے روٹی کی قیمت پر صرف ایک پیسے جبکہ دیگر اجناس جیسے چاول، چینی، مکئی ، آلو، ٹماٹر اور کیلے پرزیادہ سے زیادہ 10 پیسے کا فرق پڑتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ یوریا کی مقامی صنعت نے ملک کے کسانوں کو بین الاقوامی یوریا کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے سے بچایا ہے کیونکہ مقامی طور پر تیار کردہ یوریا 2012کی سطح پر1750روپے فی بیگ دستیاب ہے۔  ملک میں یوریا 81فیصد کی نمایاں رعایت پر دستیاب ہے جو کہ بین الاقومی قیمتوں کے مقابلے میں 7500 روپے فی بیگ سستی ہے جس سے کسانوں کو سالانہ 350ارب روپے سے زائد کا فائدہ مل رہا ہے اور توقع ہے کہ 2021کے اختتام تک ملک کو درآمدی متبادل کے طور پر3ارب ڈالر کی بچت ہوگی۔انہوں نے پاکستان کے زرعی شعبے کو تبدیل کرنے کے وژن اور معاون پالیسیوں پر پی ٹی آئی حکومت کی تعریف کی جس کی وجہ سے پچھلے سال کھاد کی قیمتوںمیں 400روپے فی بیگ کی کمی ہوئی۔عمران کے مطابق ایک مضبوط مقامی یوریاصنعت کی عدم موجودگی میں پاکستان کو بھارت اور سری لنکا کی طرح یوریا کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑتا ۔انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئی بتایا کہ مقامی کسانوں کو درپیش اصل مسئلہ عالمی سطح پر ڈی اے پی کی قیمتوں میں 100فیصد سے زائد کا اضافہ ہے جس کے اثرات مقامی مارکیٹ پر پڑتے ہیں کیونکہ ڈی اے پی کی مقامی طلب درآمدات سے پوری ہوتی ہے۔فصلوں کی اعلیٰ پیداوار اور کھادوں کے متوازن مرکب کو فروغ دینے کیلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ڈی اے پی پر سبسڈی دے کر کسانوں کو ریلیف فراہم کرے۔ انہوں نے بتایا کہ فی الحال صرف پنجاب حکومت کی جانب سے ڈی اے پی پر سبسڈی فراہم کی جارہی ہے ۔وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ دیگر صوبائی حکومتوں کوبھی ربیع سیزن 2021-22کیلئے فاسفیٹک کھاد پر سبسڈی فراہم کرنے کیلئے قائل اورمتحرک کرے۔کاشتکار برادی کی طرف سے سفارش کی گئی ہے کہ حکومت ڈی اے پی کی موجودہ قیمتوں کے پیشِ نظر سبسڈی کی رقم  2000روپے فی بیگ تک بڑھائے ۔مزید یہ کہ سبسڈی تھیلوں تک محدودکرنے کے بجائے زمین کی ملکیت اور کسانوں کی تجویز کردہ خوراک پر مبنی ہونی چاہیے۔انہوں نے بتایا کہ اگلے شروع ہونے والے ربیع سیزن کیلئے ، حکومت نے بہت سمجھداری کے ساتھ اسٹیکر /وائوچرز کے طریقہ کار کے ذریعے سبسڈی کی تقسیم کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ انہوںنے حکومتی اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کسانوں کی ضرورت اور ان کو برقت ریلیف فراہم کرنے کو مدِ نظررکھتے ہوئے کسان کارڈ کے مکمل رول آئوٹ کیلے متوقع سے زیادہ طویل مدت کے پیشِ نظرثابت شدہ وائوچر کا عمل جاری رکھا۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ کسان کارڈ کو اگلے سیزن تک مکمل طور پر لاگو کیا جائے گا ۔