ٹی ایل پی معاہدے کے معاملہ پر میں نے پوراایک اختلافی نوٹ لکھا ہے فواد چوہدری
ابھی تک تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والا معاہدہ کابینہ کے سامنے نہیں آیا،
اسلام آباد(ویب نیوز )وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی)کی مین اسٹریمنگ کا مطلب مجھے نہیں پتا،اتنی نفرت پر مبنی جو آئیڈیالوجیز ہوتی ہیں وہ مین اسٹریم نہیں ہوا کرتیں اور فرقہ واریت کے اوپر مبنی آئیڈیالوجیز کیسے مین اسٹریم ہوسکتی ہیں، جو آئیڈیالوجی اور جو نظریہ اس بات پر قائم ہو کہ صرف یہ نظریہ صیح ہے اور باقی سارے جو ہیں ان کو قتل کردینا چاہیئے یاان کو ختم کردینا چاہیئے ، وہ آئیڈیالوجی تو کبھی مین اسٹریم تو ہوہی نہیں سکتی، یہ لوگ کبھی مین اسٹریم نہیں ہوسکتے، کبھی بھی نہیں ہوسکتے۔ سچی بات ہے کہ ابھی تک تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والا معاہدہ کابینہ کے سامنے نہیں آیا۔ پی ٹی آئی کے ٹی ایل پی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے حوالہ سے نہ کوئی بات آئی ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز ہے۔تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے معاملہ پر میں نے پوراایک اختلافی نوٹ لکھا ہے۔ان خیالات کااظہار فواد چوہدری نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے معاملہ پر میں نے پوراایک اختلافی نوٹ لکھا ہے اور وہ میں نے کابینہ کے حوالہ کیا ہے اورتمام معاملات کے اوپر اپنی رائے دی ہے، اس اختلافی نوٹ میں کافی کچھ ہے۔ تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والا معاہدہ کابینہ کا فیصلہ ہے۔ سچی بات ہے کہ ابھی تک تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہونے والا معاہدہ کابینہ کے سامنے نہیں آیا، جب وہ کابینہ کے سامنے آئے گاتو پھر اس کے اوپر کوئی رائے قائم ہوگی، پھر ہی اس کے اوپر بات ہوسکتی ہے، ابھی تو ہمیں پتہ نہیں ہے کہ کیا ہورہا ہے اور کیا نہیں۔ پی ٹی آئی پنجاب کے صدر کا سعد رضوی سے ملاقات کا فیصلہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے اور اس حوالہ سے پارٹی کی کور کمیٹی میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ یہ پارٹیوں کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ہمارے معاشرے کا مسئلہ ہے، حالت یہ ہے کہ ہماری اسمبلی انڈرایج شادی کے حوالہ سے قانون پاس نہیں کرسکی، سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک نے بھی انڈرایج شادی کو کریمینل معاملہ قراردیا ہے،یہ صرف پی ٹی آئی کامعاملہ نہیں تھا بلکہ (ن)لیگ اور یہاں تک کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بھی دو لوگ کھڑے ہو گئے اورانہوں نے کہا کہ ہم اس کی حمایت نہیں کرتے، اس سے اندازہ لگالیں کہ شدت پسندی ہمارے معاشرے اور سیاسی جماعتوں میں کتنی سرائیت کرچکی ہے۔ایک سوال پر فواد چوہدر ی کاکہنا تھا کہ ٹی ایل پی کے معاملہ پر ریاست کے پیچھے ہٹنے کی بات تو میں نے شدت پسند ی کے اوپر ایک سیمینار میں لیکچر دیتیے ہوئے کہی، یہ سیمینار سیاسی کی بجائے اکیڈمک نوعیت کا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ریاست سے کیا مراد ہے،ریاست سے مراد ، ریاست میں صوبائی حکومتیں شامل ہیں، اس میں اکیڈیمیا شامل ہے، اس میں میڈیا شامل ہے، اس میں دیگر تمام لوگ اور بیوروکریسی شامل ہے اور عدالتیں شامل ہیں، ریاست ایک بہت بڑے انفرااسٹرکچر کا نام ہے، اسی لیکچر میں ، میں نے تشریخ کی ہے کہ طرح ہم نے انتظامی ڈاھانچہ ماضی میں تباہ کردیا۔شدت پسندی کا خاتمہ اس وقت تک بڑا مشکل ہے جب تک ہمارے تعلیمی ادارے، اکیڈیمیا اور معاشرہ اپنا حصہ نہیں ڈالیں گے۔ حکومت کا جو مدعایہی ہونا چاہیء وہ یہی کہ کس طریقہ سے ہم نے اپنی رٹ قائم کرنی ہے اور جب تک رٹ قائم نہیں ہو گی اس وقت تک معاشرے میں بحث نہیں ہوسکتی ، بنیادی طور پر یہ موضوع تھا جس کی میں نے تشریح کی۔ یہ ہمیں بطور معاشرہ سوچنا پڑے گا کہ ہم کدھر جارہے ہیں۔