بھارت: ناگا لینڈ میں تشدد ،متاثرہ ضلع میں کرفیو نافذ، فوج کے خلاف مقدمہ

بھارتی پارلیمنٹ میں معاملے پر ہنگامہ،بھارتی فوج کے خصوصی اختیارات ختم کرنے کا مطالبہ

نئی دہلی ( ویب  نیوز)بھارتی ریاست ناگالینڈ میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں عام شہریوں کی ہلاکت کے دوسرے روز پر تشدد کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ادھر ریاستی پولیس نے عام شہریوں کی ہلاکت کے لیے فوج کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی شمال مشرقی ریاست ناگا لینڈ میں اتوار کی شام کو سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کی، جس میں ایک اور شہری ہلاک ہو گیا۔ اس طرح اس واقعے میں اب تک 14 عام شہری اور ایک فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ریاست میں شدید کشیدگی کا ماحول ہے اور حکام نے امتناعی احکامات کے تحت دفعہ 144 نافذ کر دیا ہے۔ متاثرہ ضلع میں کرفیو نافذ ہے جبکہ بیشتر علاقوں میں انٹرنیٹ اور فون کی سہولیات معطل کر دی گئی ہیں۔ اس دوران مقامی لوگوں اور متعدد تنظیموں نے ہلاک ہونے والے عام شہریوں کے لیے شمعیں روش کیں۔ تشدد کا آغاز ہفتہ  کو اس وقت ہوا تھا جب نیم فوجی دستوں نے عسکریت پسندوں کے شبے میں چھ مزدروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے خلاف پر تشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہو ئے۔ مظاہروں کے دوران مقامی لوگوں نے فوجی کیمپوں کی طرف مارچ کیا اور ان پر حملے شروع کر دیے۔

فوج نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس میں مزید سات افراد ہلاک ہو گئے۔اس دوران ریاستی حکومت نے فوج کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔ ایف آئی آر میں درج کیا گیا ہے کہ فورسز نے دانستہ طور پر عام شہریوں کو قتل کیا۔ پولیس نے فوجی یونٹ پر ارادتا قتل کا الزام لگایا ہے۔ واقعے کی تفتیش کے لیے ریاستی پولیس کی ایک خصوصی تفتیشی ٹیم بھی تشکیل دی گئی ہے۔پولیس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، "واضح رہے کہ اس واقعے کے وقت کوئی پولیس گائیڈ موجود نہیں تھا اور نہ ہی سکیورٹی فورسز نے مقامی پولیس اسٹیشن سے اپنے آپریشن کے لیے گائیڈ فراہم کرنے کی کوئی درخواست دی تھی۔ لہذا یہ ظاہر ہے کہ سکیورٹی فورسز کا ارادہ عام شہریوں کو قتل اور زخمی کرنا تھا۔” بھارت کی بعض شمال مشرقی ریاستوں اور کشمیر میں ‘آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ(افسپا) نافذ ہے۔ اس  قانون کے تحت فوج اور نیم فوجی دستوں کو ایسے وسیع تر اختیارات حاصل ہیں کہ وہ، بغیر کسی پیشگی اطلاع کے سرچ آپریشن، گرفتاری، مار پیٹ کرنے اور آپریشن کے نام پر کسی کو بھی ہلاک کرنے کی مجاز ہیں اور جب تک مرکزی حکومت اجازت نہ دے اس وقت تک فوج کے خلاف کوئی کارراوئی بھی نہیں کی جا سکتی۔ناگا لینڈ کی ریاستی حکومت نے فوج کے خلاف قتل کا مقدمہ تو درج کر لیا ہے تاہم جس فوجی دستے نے یہ کارروائی کی ہے اس کے خلاف کارروائی کا امکان بہت کم ہے کیونکہ بھارتی حکومت شاذ و نادر ہی اس کی اجازت دیتی ہے۔ اس دوران ناگا لینڈ کی حکومت اور ریاست کی متعدد تنظیموں نے اس متنازعہ قانون کو واپس لینے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ ریاست کے وزیر اعلی نیفیو ریو نے حکومت پر یہ کہتے ہوئے  نکتہ چینی کی کہ، "مرکزی حکومت ہر برس ریاست کو ایک ڈسٹرب علاقہ بتا کر ناگا لینڈ میں افسپا میں توسیع کر دیتی ہے۔” ان کا کہنا تھا کہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ناگا لینڈ کے،

"تمام مسلح گروپ جنگ بندی اور امن مذاکرات کے عمل میں بھی شامل ہیں تو پھر اس میں توسیع کیوں کی جاتی ہے؟ اس کے ہٹانے پر بحث بھی ہو رہی ہے اور جب ہم ایک بڑی جمہوریت ہیں تو اسے ہٹاتے کیوں نہیں۔”اس دوران حکومت نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے اعلی سطح پر ہونے والی تفتیش کا انتظار ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس حوالے سے پارلیمان میں ایک بیان دیا اور کہا کہ اب حالات قابو میں ہیں اور حکومت کی تازہ صورتحال پر گہری نظر ہے۔  ادھر حزب اختلاف کی تقریبا سبھی جماعتوں نے بھی اس واقعے کی مکمل تفتیش کا مطالبہ کرتے ہوئے متاثرین کے ساتھ انصاف کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ پیر کے روز پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اس معاملے پر ہنگامہ بھی ہوا۔بھارتی فوج نے بھی اس سلسلے میں ایک بیان جاری میں عام شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل اس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ انٹیلجنس کی بنیاد پر علاقے میں سرگرم باغیوں کا تعاقب کر رہی تھی اور غلطی سے اس نے متاثرین کو عسکریت پسند سمجھ کر ہلاک کر دیا۔ بھارتی فوج کا مزید کہنا تھا کہ اس واقعے میں سکیورٹی فورسز کا ایک رکن ہلاک اور دیگر زخمی ہو گئے۔ بھارتی فوج کے مطابق اس واقعے میں جانوں کے ضیاع کی اعلی سطح پر تحقیقات کی جا رہی ہیں اور ”قانون کے مطابق مناسب کارروائی کی جائے گی،دریں اثنائبھارتی فوجیوں کی فائرنگ سے قتل 14 شہریوں کی آخری رسومات ادا کردی گئیں ، کرفیو لگائے جانے کے باوجود فوجی بربریت پر برہم عوام نے بھرپور احتجاج کیا اور مقتولین کے جنازے میں بڑی تعداد میں شرکت کی۔فوج کی جانب سے بندشوں اور انٹرنیٹ بند کیے جانے کے باوجود سینکڑوں ہزاروں افراد مقتولین کے جنازے لے کر ضلع مون میں جمع ہوئے جہاں ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔