توہین رسالت کے جرم میں کسی کو سزادینا ریاست کا کام ہے،مفتی تقی عثمانی

اگر ہر کسی کو یہ موقع دے دیا جائے کہ تم خود فیصلہ کرواورخود ہی سزادے دیاکرویہ تو انارکی پھیلانے والی بات ہے،نجی ٹی وی کو انٹرویو

اسلام آباد (ویب  نیوز)معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ توہین رسالت کے جرم میں کسی کو سزادینا ریاست کا کام ہے، یہ کسی شخص کا انفرادی کام نہیں ہے۔ کسی کو کسی بھی جرم کی سزادینا یہ کام ریاست کا ہے اور یہ عوام کا کام نہیں ہے۔ اگر ہر کسی کو یہ موقع دے دیا جائے کہ تم خود فیصلہ کرواورخود ہی سزادے دیاکرویہ تو انارکی پھیلانے والی بات ہے اوراسلام تواس کی کبھی بھی اجازت نہیں دیتا۔ شریعت کا تو یہ حکم ہے کہ اگر قاضی نے اپنی آنکھوں سے کوئی جرم ہوتے ہوئے دیکھا ہے توقاضی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس کے اوپر سززادے دے، اسے عدالتی کاروائی سے گزرکر ہی کوئی فیصلہ کرنا ہو گا اور وہ اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، کہ مجھے علم ہے کہ فلاں نے ڈاکہ ڈالا ہے لہذا میں اپنے علم کی بنیاد پراس کو سزادے دوں، یہ نہیں ہوسکتا۔ ان خیالات کااظہار مفتی تقی عثمانی نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ واقعہ نے دل کو بہت بے چین کیا، ایک یہ کہ ناحق قتل ہوا اور دوسرایہ کہ بے دردی سے ہوا، تیسرا یہ کہ اس نے اسلام، مسلمانوں ، ہمارے ملک اورپوری ملت کی ایک بہت ہی بھونڈی تصویر پیش کی، اس وجہ سے اس کا غم اور کرب بہت زیادہ ہے۔ اس وقعہ کے نتیجہ میںملک، ملت اوراسلام کی بدنامی سے بھی بہت صدمہ ہوا۔ اس سے بعض لوگ غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کریں گے جیسے کہ ریت نہ پڑ جائے کہ ہر آدمی قانون کو ہاتھ میں لے کرجو چاہے فیصلے کر لے، خود ہی فیصلہ کر لے کہ توہین ہوئی ہے اور خود ہی فیصلہ کر لے کہ اس کی سزاہونی چاہئے اورخود ہی فیصلہ کر لے کہ موت ہونی چاہئے اور خودہی فیصلہ کر لے کہ اس کو کس طرح قتل کرنا ہے، یہ ریت پڑنا ملک اندر بہت خطرناک ہے۔ کچھ لوگوں نے مغرب کے پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر توہین رسالت کے قانون کے بارے میں انہوں نے خوامخواہ کا شور مچایا ہواہے، وہ اس سے غلط فائدہ اٹھائیں گے۔ جو حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص کوئی برائی دیکھے تواسے ہاتھ سے روکے اس کا مخاطب وہ لوگ ہیں جن کو کسی بھی دائرے میں کوئی اقتدارحاصل ہو۔ میراگھر ہے اس میں مجھے اقتدار حاصل ہے میں ہاتھ سے روک سکتا ہوں، کوئی ادارے کا سربراہ ہے ادارے کے اندر کوئی غلطی ہورہی ہے تووہ اس کو ہاتھ سے روک سکتا ہے۔ اگر عام آدمی کسی جگہ جائے کہ یہ کام غلط ہورہا ہے اوراس کو توڑ دے یا خراب کردے اس کی اجازت شریعت میںنہیں ہے اور چہ جائے کہ کسی کو قتل کی سزادینا، اس کا تو کسی بھی طرح کسی کو اختیار نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اسلام کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ان میں سے ایک حصہ عبادات سے متعلق ہے اور باقی تین حصے حقوق العباد سے متعلق ہیں اور یہ بندوں کے حقوق سے متعلق ہے جس میں مسلمان بھی آتے ہیں اور غیر مسلم بھی آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذمہ لیا ہے جو مسلمان ریاست میں غیر مسلم رہتے ہیں ان کی جان، مال اورآبرو، ان تینوں کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ لیا ہے، اگر کوئی شخص ان میں سے کسی حق کو بھی پامال کرے گا تو جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھے گا، یہ حدیث کے الفاظ ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی شخص حقوق اللہ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اگر کسی وقت اس کو پشیمانی ہو اوراگر اللہ تعالیٰ کے حضورتنہائی میں بھی بیٹھ کر توبہ کر لے اورصدق دل سے معافی مانگ لے تو اللہ تعالیٰ معاف کردیتے ہیں، لیکن اگر کسی بندے کا حق پامال کیا ہے توجب تک وہ حق ادا نہ کردے یا صاحب حق اس کو معاف نہ کردے اس وقت اس کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔ ایک تھوڑا سا عنصر یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں توہین رسالتۖ یا توہین مذہب کا جو قانون ہے ، ایسا لگتا ہے کہ اس قانون کو بہت سے حلقوں نے سنجیدہ نہیں لیا۔ عوام کو یہ سمجھنا چاہئے اوران کی تربیت کرنی چاہئے اوران کے دل میں یہ بات بٹھائی جائے کہ ریاست کا جوکام ہے وہ آپ اپنے ہاتھ میں نہ لیں اورخود ہی فیصلے نہ کریں۔توہین عدالت ہوئی ہے یا نہیں اس کی تحقیق سوائے عدالت کے کو ن کرسکتاہے، اس لئے ہمیں خود سے کوئی بھی اقدام کرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا، واقعہ کی تحقیق ہونی چاہئے۔ ZS