ٹی ٹی پی کے اہم کمانڈر مولوی فقیر محمدساتھیوں سمیت ڈرون حملے میں بال بال بچ گئے،غیر ملکی نشریاتی ادارے کا دعوی

مولوی فقیر محمد کے حجرے یا گیسٹ ہاوس کے صحن میں ڈرون سے ایک میزائل داغا گیا، جو کہ پھٹنے نہیں سکا

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

کالعدم تحریک طالبان پاکستان( ٹی ٹی پی)کے سینئر کمانڈر مولوی فقیر محمد اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان کے سرحدی علاقے میں ایک ڈرون حملے کے دوران بال بال بچ گئے ، پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ایک گھر پر ڈرون حملہ کیا گیا، جس میں بظاہر پاکستانی طالبان کے سینیئر رہنما مولوی فقیر محمد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ جرمن نشریاتی ادارے نے برطانوی خبر رساں ادارے کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ عسکریت پسند گروہ تحریک طالبان پاکستان کے ذرائع نے کہا ہے کہ پاکستان کے ساتھ افغانستان کی سرحد کے اندر واقع مولوی فقیر محمد کے حجرے یا گیسٹ ہاوس کے صحن میں ڈرون سے ایک میزائل داغا گیا، جو کہ پھٹنے نہیں سکا۔ اس طرح  مولوی فقیر محمد  اور ان کے ساتھی ڈرون حملے میں بچ گئے۔ٹی ٹی پی کے اہلکار نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر برطانوی خبررسا ں ادارے کو بتایا، ”تقریبا ساڑھے تین بجے اچانک ایک ڈرون  فضا میں دیکھا گیا۔ ہم پریشان ہوگئے اور مولوی فقیر کو ایک محفوظ مقام پر جانے کا کہا، لیکن انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ دن کے وقت کہیں چھپنا ممکن نہیں ہے۔ اطلاعات کے مطابق فقیر محمد میزائل داغے جانے سے تقریبا آدھا گھنٹہ قبل ہی اپنے گھر سے گیسٹ ہاس کے لیے روانہ ہوئے تھے۔طالبان رہنما کے مطابق مسلح ڈرون نے جب گیسٹ ہاوس کے ایک کمرے پر میزائل فائر کیا تو فقیر محمد وہاں سے صرف تین میٹر کے فاصلے پر موجود تھے۔ ”خوش قسمتی سے میزائل نہیں پھٹ سکا اور  فقیر محمد  اور ان کے ارد گرد موجود افراد محفوظ رہے۔ ادھر فرانسیسی خبر رساں ادارے نے اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس حملے میں ٹی ٹی پی کے دو جنگجو زخمی ہوئے ہیں۔فقیر محمد تحریک طالبان پاکستان  کے ایک سابق رہنما ہیں۔ وہ آٹھ برس تک افغانستان کی بگرام جیل میں قید تھے۔ افغان طالبان نے رواں برس پندرہ اگست کو کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ان کو رہا کردیا تھا۔مولوی فقیر احمد پر مبینہ ڈرون حملے کی خبر ایسے وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان کی حکومت  اورٹی ٹی پی  کے درمیان مستقل جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے۔ عسکریت پسند تنظیم ٹی ٹی پی نے گزشتہ ہفتے تیس دن کی جنگ بندی میں توسیع کرنے سے انکار کردیا تھا۔واضح رہے اسی مسلح گروپ نے پچھلے پندرہ برسوں میں پاکستان میں کئی دہشت گردانہ حملوں میں بے شمار سکیورٹی اہلکاروں اور عام شہریوں کو شہید کیا ہے۔ اس میں سن 2014 کا پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہولناک دہشت گردانہ حملہ بھی شامل ہے، جس میں ٹی ٹی پی کے جنگجوں نے تقریبا ڈیڑھ سو بچے اور ٹیچرز کو شہید کر دیا تھا۔یہ گروہ افغان طالبان سے علیحدہ کام کرتی ہے۔ ٹی ٹی پی کے جنگجو اور سینیئر رہنما طویل عرصے سے افغانستان کے مشرقی سرحدی علاقوں میں مبینہ پناہ لیے ہوئے ہیں۔