پاکستان کی مقبوضہ کشمیر میں مزید 6 افراد کے ماورائے عدالت قتل کی مذمت
عالمی برادر ی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کے لیے بھارت کو جوابدہ ٹھہرائے،ترجمان دفتر خارجہ
اسلام آباد(ویب نیوز)پاکستان نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں مزید 6 کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل کی شدید مذمت کی ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے اپنے بیان میں کہا کہ پا کستان، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں گزشتہ تین دنوں میں جعلی مقابلوں اور نام نہاد محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران مزید 6 کشمیری نوجوانوں کے ماورائے عدالت قتل کی شدید مذمت کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اتوار کو بھارتی قابض افواج نے ایک 19 سالہ طالب علم کو مقبوضہ وادی کے علاقے اسلام آباد میں بے گناہ طور پر شہید کیا۔دسمبر کے مہینے میں اب تک بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں 18 کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔عاصم افتخار نے کہا کہ قابض فوج نے غیر قانونی نظر بندیوں، رات کے چھاپوں، جبر، ہراساں کرنے اور کشمیریوں کی تذلیل کا سلسلہ تیز کر دیا ہے اور محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں میں ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ بلاروک ٹوک جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال اپریل سے اہل خانہ کی رضامندی اور موجودگی کے بغیر نامعلوم مقامات پر شہدا کی تدفین بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اور راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ(آر ایس ایس)اتحاد کے ظالمانہ اور اخلاقی دیوالیہ پن کا ایک اور مکروہ مظہر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو اچھی طرح سے معلوم ہونا چاہیے کہ کسی بھی قسم کا جبر اور طاقت کا استعمال بہادر کشمیریوں کے عزم کو نہیں توڑ سکتا جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف پرعزم ہیں اور اپنے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔دفتر خارجہ کے ترجمان نے عالمی برادری سے پاکستان کے مطالبے کا اعادہ کیا کہ وہ غیر قانونی طور پر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کے لیے بھارت کو جوابدہ ٹھہرائے۔انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے ادارہ یواین ایچ سی آر کی 2018 اور 2019 کی رپورٹوں میں پیش کردہ سفارشات کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات ایک آزادانہ تحقیقاتی کمیشن کے ذریعے کی جانی چاہیے۔واضح رہے کہ 2020 میں خفیہ طور پر تدفین کی پالیسی کے آغاز سے اب تک حکام سیکڑوں مبینہ حریت پسندوں اور ان کے ساتھیوں کی لاشیں دور دراز علاقوں میں بے نام و نشان قبروں میں دفن کر چکے ہیں اور ان کے اہل خانہ کو تدفین کے لیے لاش دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔