پاکستان کی مقبوضہ کشمیر میں پریس کلب پر قبضے اور صحافیوں کی گرفتاری کی مذمت

بھارتی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے عزم کو کبھی کمزور نہیں کر سکتی

عالمی برداری مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں کی غیر قانونی گرفتاریوں پر بھارت سے جواب طلب کرے،ترجمان دفتر خارجہ

اسلام آباد( ویب نیوز) پاکستان نے کشمیر پریس کلب پر قبضے سمیت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کو ہراساں کرنے، غیر قانونی گرفتاریوں اور جعلی مقدمات کے اندراج کی مذمت کی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کشمیر پریس کلب پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے اپنے گھنائونے جرائم اور انسانیت سوز مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو زبردستی خاموش کرانے کے لیے طاقت اور جبر کے وحشیانہ استعمال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی عکاسی کرتا ہے۔اپنے بیان میں دفتر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ، پبلک سیفٹی ایکٹ اور آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ سمیت سخت اور غیرانسانی قوانین کا بڑھتا ہوا استعمال بھارت کی نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے عزم کو کبھی کمزور نہیں کر سکتی۔دفتر خارجہ نے بین الاقوامی برادری بالخصوص اقوام متحدہ اور انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کے عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور سول سوسائٹی کے دیگر کارکنوں کو ہراساں اور ان کی غیر قانونی گرفتاریوں پر بھارت سے جواب طلب کریں۔دی پرنٹ کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کے روز کشمیر پریس کلب میں ناخوشگوار سرگرمیاں دیکھی گئیں جب پولیس اہلکاروں کے ہمراہ چند صحافی وہاں پہنچے اور کلب کی نئی انتظامیہ ہونے کا دعوی کیا۔پولیس اہلکاروں نے ان صحافیوں میں سے ایک کے ذاتی سیکیورٹی افسر ہونے کا دعوی کیا اور مذکورہ صحافی نے میڈیا کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ‘کچھ جرنلسٹ فورمز’ نے انہیں نئے عہدے داروں کے طور پر منتخب کیا ہے۔عبوری باڈی کے دعوے جلد ہی اس وقت متنازع ہو گئے جب مقبوضہ کشمیر میں نو صحافتی اداروں کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کشمیر کے دفتر پر انتظامیہ کی کھلی حمایت کے ساتھ ساتھ زبردستی قبضے کی مذمت کی گئی اور اس عمل غلط قرار دیا گیا۔مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں نے پولیس کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے ساتھ دھمکی آمیز رویے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقبوضہ کشمیر میں بہت سے صحافیوں کو گرفتار کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ہراساں کیا گیا اور بعض اوقات تفتیش بھی کی گئی۔نیویارک میں قائم کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹس(سی پی جے)نے گزشتہ ہفتے ہندوستانی حکام سے مطالبہ کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں احتجاج کا ویڈیو کلپ اپ لوڈ کرنے پر پولیس کی جانب سے گرفتار کیے گئے صحافی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ادارے نے کہا تھا کہ وہ ایک آزاد صحافی اور میڈیا کے طالب علم سجاد گل کی گرفتاری کے حوالے سے بہت پریشان ہے۔2018 میں قائم ہونے والا کشمیر پریس کلب ہمالیائی خطے میں آزاد میڈیا کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور کم از کم 300 صحافی کل کے رکن ہیں۔