PRIME MINISTER IMRAN KHAN ADDRESSES AT THE 17TH EXTRAORDINARY SESSION OF OIC COUNCIL OF FOREIGN MINISTERS. ISLAMABAD ON DECEMBER 19, 2021.

وزیراعظم نے چیئرمین نیب کو کسی بھی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہونے سے روک دیا

پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال کو خط کے زریعہ طلب کرنے کا فیصلہ

جو پیسے چیئرمین نیب نے اپنے دور میں خرچ کئے ہیں اسے اس کا حساب دینا ہوگا، چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین

پرنسپل اکاونٹنگ آفسر بدل گئے ، وزیراعظم و کابینہ نے اس کی منظوری دی ،چیئرمین نیب کی تمام کمیٹیوں میں نمائندگی ڈی جی نیب کیا کریں گے، نیب سے جاری لیٹر

چیئرمین نیب نے کہا تھا وہ خود آ کر ریکوریز کے اعداد و شمار پیش کریں گے،ابھی ہمیں ایک لیٹر دکھایا گیا ہے کہ پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر بدل گئے ہیں،شیری رحمن

چیئرمین نیب پارلیمان کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا چاہتے، چیئرمین نیب چاہتے ہیں سب ان کے سامنے جوابدہ ہوں، نوید قمر

اسلام آباد(ویب  نیوز)

وزیراعظم عمران خان نے چیئرمین نیب جسٹس(ر)جاوید اقبال کو کسی بھی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے روک دیا جبکہ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال کو خط کے زریعہ طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کو ہر صورت آنا چاہیئے تھا اس لئے اجلاس مئوخرکیا۔جمعرات کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پی اے سی کا ان کیمرہ اجلاس ہوا، جس میں چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال پیش نہ ہوئے، اجلاس میں چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال نے کمیٹی ارکان کو بریفنگ دینی تھی۔ تاہم چیئرمین نیب کی عدم شرکت کے بعد اجلاس مئوخر کردیا گیا ۔ جبکہ یہ اجلاس چیئرمین نیب کے کہنے پر ہی بلایا گیا تھا اور ان کیمرہ کیا تھا، اب اچانک نیب کی جانب سے لیٹر آیا ہے کہ پرنسپل اکاونٹنگ آفسر بدل گئے ہیں، جبکہ لیٹر میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم و کابینہ نے اس کی منظوری دی ہے۔نیب نے سیکرٹری قومی اسمبلی کو وزیر اعظم عمران خان کا حوالہ دے کر خط لکھا ہے کہ وزیر اعظم نے چیئرمین نیب کی جگہ ڈی جی نیب کو بریفنگ دینے کی منظوری دی ہے، چیئرمین نیب پی اے سی سمیت کسی بھی قائمہ کمیٹی میںبطور پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر پیش نہیں ہوں گے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب آئینی ادارے اورخود مختار اداروں کے سامنے بطور پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر پیش نہیں ہوں گے۔ چیئرمین نیب کی تمام کمیٹیوں میں نمائندگی ڈی جی نیب کیا کریں گے۔ وزیر اعظم نے چیئرمین نیب کی قانونی ذمہ داریوں کو مدنظر رکھ کر منظوری دی۔ جبکہ رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ نیب کے خط کی وضاحت کے لئے کابینہ ڈویژن کو خط لکھیں گے اگر قوائد وزیر اعظم کو چیئرمین کی جگہ ڈی جی کو نمائندگی کا اختیاردینے کی اجازت دیتے ہیں تو تسلیم کرلیں گے۔اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا تنویر حسین کا کہنا تھا کہ ہم نے چیئرمین نیب کو خط کے زریعہ بلانے کا فیصلہ کیا ہے، چیئرمین نیب کو پی اے سی میں ہر صورت آنا چاہیئے تھا ، یہ اجلاس چیئرمین نیب کی درخواست پر ہی ان کیمرہ بلایا گیا تھا تاہم صبح پتا چلا کہ چیئرمین نیب اجلاس میں نہیں آرہے ۔ جبکہ ڈی جی نیب جو جمعرات کے روز اجلاس میں پیش ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کی بریفنگ میں کچھ حساس معلومات ہیں جس پر یہ اجلاس ان کیمرہ ہی کرنے دیں۔ رانا تنویر حسین سے پوچھا گیا کہ جس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کی طرف سے رجسٹرار کو اپنا پرنسپل اکائونٹنگ آفیسر مقرر کیا گیا ہے تو اگر نیب کی طرف سے بھی کچھ ایسا ہو جائے تو اس پر ان کا کیا ردعمل ہو گا۔ اس پر رانا تنویر حسین کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی پوزیشن اور ہے اور چیئرمین نیب کی اور ہے، چیئرمین نیب کی پوزیشن یکسر مختلف اور قابل احتساب ہے اگر حکومت اسے جوابدہ نہ بنائے تو یہ زیادتی ہو گی۔ رانا تنویر حسین کا کہنا تھا کہ جو پیسے چیئرمین نے اپنے دور میں خرچ کئے ہیں انہیں ان کا حساب دینا ہو گا ، کابینہ سیکرٹری بزریعہ ٹیلی فون یا تحریری طور پر آگا کریں کہ کیا یہ قانون کے مطابق نوٹیفیکیشن کیا گیا ہے اگر ایک بندہ وزیر اعظم کو بہت عزیز ہے تواسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ رانا تنویر کا کہنا تھا کہ ہم خط لکھیں گے اور چیئرمین نیب سے کہیں گے کہ وہ پی اے سی کے اگلے اجلاس میں آئیں۔ پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں چیئرمین نیب نے ریکوریز پر پی اے سی ان کیمرا اجلاس مانگا تھا، چیئرمین نیب سے ہم نے ریکوریز کے اعداد و شمار مانگے تھے، چیئرمین نیب نے کہا تھا وہ خود آ کر ریکوریز کے اعداد و شمار پیش کریں گے،ابھی ہمیں ایک لیٹر دکھایا گیا ہے کہ پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر بدل گئے ہیں۔نوید قمر نے کہا کہ چیئرمین نیب پارلیمان کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا چاہتے، چیئرمین نیب چاہتے ہیں سب ان کے سامنے جوابدہ ہوں، وہ خود کسی کے سامنے پیش نا ہوں، وفاقی کابینہ کے پاس اختیار نہیں کہ وہ چیئرمین نیب کو پی آے سی میں آنے سے منع کرے۔