کب تک ایسا چلے گا کہ مال چین سے آ رہا ہے اور ادائیگی دبئی میں ہو رہی ہے؟

وزیر خزانہ کا آٹومیشن آف کرنسی ڈیکلئریشن سسٹم کی افتتاحی تقریب سے خطاب

اسلام آباد (ویب ڈیسک)

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر شوکت ترین نے کہا ہے کہ پاکستان میں لوگ ٹیکس نہیں دیتے ہیں لیکن جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے ان تک پہنچ رہے ہیں، ٹیکسیشن اور فارن ایکسچینج پاکستان کی معیشت کے انتہائی اہم جز ہیں، کب تک ایسا چلے گا کہ مال چین سے آ رہا ہے اور ادائیگی دبئی میں ہو رہی ہے؟۔ایف بی آر میں آٹومیشن آف کرنسی ڈیکلئریشن سسٹم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے دعوی کیا کہ اب ایسا نظام آئے گا کہ سرکاری اداروں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایف بی آر کو مکمل آٹومیٹڈ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسیشن اور فارن ایکسچینج پاکستان کی معیشت کے انتہائی اہم جز ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ فارن ایکسچینج کو بیرون ملک لے کر جانا اور لے کر آنا سے متعلق دستاویزات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں انڈرانوائسنگ ہو رہی ہے اور انڈر انوائسنگ کے باعث ریونیو (محصولات)میں نقصان ہو رہا ہے۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ کسٹم میں بھی سنگل ونڈو سسٹم متعارف کرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سامان چائنا سے آ رہا ہے اور انوائسنگ دبئی سے ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے کہ سامان چائنا سے آئے اور انوائسنگ دبئی میں ہو۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ لوگوں نے دبئی میں کمپنیاں کھولی ہوئی ہیں جہاں سے انڈرانوائسنگ ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اوور انوائسنگ اور انڈر انوائسنگ دونوں خودکار نظام سے روکی جا سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انرجی میں ٹرانسفر پرائسنگ کی روک تھام کریں گے۔ شوکت ترین نے استفسار کیا کہ کب تک ایسا چلے گا کہ مال چین سے آ رہا ہے اور ادائیگی دبئی میں ہو رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اب ایسا نہیں چلے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ جن لوگوں نے کمپنیاں کھولی ہوئی ہیں انہیں روکیں گے۔انہوں نے کہا کہ فارن ایکسچینج میں ہم نے بہتری لانی ہے، ایف آئی اے بہت اچھا اور ذمہ داری کے ساتھ کام کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی ادارے کام کررہے ہیں لیکن اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ہم چپ کر کے تماشہ نہیں دیکھیں گے، تحقیقات کریں گے۔