فیصلے میں سقم ثابت ہونے کی صورت میں سزا معطل ہوجائے گی، ماہرین قانون کا توشہ خانہ کیس کے فیصلے پر آراء

 سزائیں دیتے وقت ملزم کو دفاع کا حق نہیں دیا گیا، فیصلے 8فروری کے لئے ہو رہے ہیں ،اعتزاز احسن

عدالتوں پر دبائو تھا، گواہوں پر جرح کرنے کی اجازت نہیں دی گئی،حامد خان

قانونی آپشنز موجود ہیں، ملزمان کو سزا کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہے،مصطفی رمدے

 ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہوتی ہے تو اس بات کے روشن امکان موجود ہے کہ فیصلے کو ریورس کردیا جائیگا ،حافظ احسان

 ٹرائل نا مکمل ہونے کی صورت میں جس طرح یہ سزا سنائی گئی ، یہ برقرار نہیں رہ سکے گی،اویس احمد

 سزائوں کا سلسلہ جاری ہے، اس نے سارے عدالتی نظام کو بے نقاب کر دیا ،محمود سدوزئی

لاہور(ویب  نیوز)

ماہرین قانون نے توشہ خانہ کیس کے فیصلے پر آراء دیتے ہوئے کہا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں فیصلے میں سقم ثابت ہونے کی صورت میں سزا معطل ہوجائے گی ۔ سینئر قانون دان اعتراز احسن نے لاہور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سزائیں دیتے وقت ملزم کو دفاع کا حق نہیں دیا گیا، پراسیکیوشن کے وکلا کو ملزم کا وکیل مقرر کروایا گیا، ملزم کا 342 کا بیان بغیر لیے سزا ہوئی۔اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ سائفر کیس میں ملزم کے گواہوں کو نہیں بلوایا گیا، سائفر میں بانی پی ٹی آئی کے 342 کے بیان پر انکے دستخط ہی نہیں ہیں، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزا پر جگ ہنسائی ہوگی۔ا نہوںنے کہا کہ ملزمان کو بغیر موقع دئیے سزا دی گئی ہے، اس سزا کے ملکی معیشت پر برے اثرات پڑیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آٹھ فروری سے پہلے سزائیں کے خلاف اپیلوں کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے ۔انہوںنے کہا کہ فیصلے 8فروری کے لئے ہو رہے ہیں، سابق چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف دونوں فیصلوں میں سقم ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے ورکرز پر دبائو رہے۔ وکیل حامد خان نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی دونوں سزائوں کے خلاف اپیلیں دائر کریں گے، عدالتوں پر دبائو تھا، فیئر ٹرائل کے اصولوں کو روندا گیا۔انہوں نے کہا کہ گواہوں پر جرح کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ماہر قانون مصطفی رمدے نے توشہ خانہ کیس میں بانی پی ٹی آئی اور بشری بی بی کو سزا دینے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ملزمان کے پاس قانونی آپشنز موجود ہیں، ملزمان کو سزا کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا اختیار ہے۔میرا خیال ہے وہ لازماً اپیل دائر کریں گے، اس کے لئے ان کے پاس پہلا فورم ہائی کورٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ سے مطمئن نہ ہوں تو وہ سپریم کورٹ بھی جاسکتے ہیں، ان کے وکلا کو ثابت کرنا پڑے گا کہ فیصلے میں سقم موجود ہے۔ماہر قانون حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ اس سارے کیس کے 3پہلو ہیں، ایک اس کا قانونی پہلو اور ہائی مورال گراونڈ کا پہلو ہے، دوسرا سیاسی پہلو ہے اور تیسرا اس کا پروسیجرل پہلو ہے جو ٹرائل کورٹ میں اپنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ قانونی پہلو کی بات کریں تو پاکستان کا قانون ہر وزیراعظم کو اجازت دیتا ہے کہ وہ توشہ خانہ تحائف اپنے پاس رکھے یا جمع کروادے، مسئلہ تب آیا جب ان تحائف کو نہ صرف جمع نہیں کروایا گیا بلکہ جو اس کی قیمت لگوائی گئی وہ بھی اس کی اصل ویلیو سے کم تھی، اصل ویلیو سے کم قیمت دے کر یہ تحائف اپنے پاس رکھ لیے گئے۔حافظ احسان کھوکھر نے مزید کہا کہ ان اقدامات کے نتیجے میں ریفرنس دائر کیا گیا، جب سے یہ ریفرنس چل رہا ہے بارہا اس پر سیاسی بیانیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی کہ دیگر سیاستدان 20 فیصد قیمت ادا کرتے تھے جبکہ ہم نے 50 فیصد قیمت ادا کی، بات صرف یہ تھی کہ کہ جو قیمت ادا کی گئی وہ ان تحائف کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق تھی یا نہیں؟ اس کا جواب کوئی نہیں تھا، نتیجتاً سیکشن 9 میں 14 سال اور سیکشن 15 میں 10 سال کی نااہلی دی گئی ۔انہوں نے کہا کہ اب اگر یہ عدالت میں ثابت کردیتے ہیں کہ ہم کورٹ کے ساتھ تعاون کررہے تھے، آرٹیکل 10 (اے)کی خلاف ورزی کی گئی، ہم اس کیس کو چلانا چاہتے ہیں اور اپنا ڈیفنس لے کر آنا چاہتے ہیں، اگر اس بنیاد پر یہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہیں تو اس بات کے روشن امکان موجود ہیں کہ اس فیصلے کو ریورس کردیا جائے گا اور معاملہ رائٹ آف کراس ایگزامنیشن پر چلا جائے گا لیکن اگر اس پر کوئی سیاسی بیانیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس فیصلے کو معطل کروانا بہت مشکل ہوجائے گا۔قانونی ماہر محمود سدوزئی نے کہا کہ جس طرح سزائوں کا سلسلہ جاری ہے، اس نے سارے عدالتی نظام کو بے نقاب کر دیا ہے، جو اس وقت ملک میں رائج ہے، توشہ خانہ کیس میں ان کو 14، 14 سال کی سزا سنائی گئی ہے، اس میں حق دفاع ختم کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ فوجداری قانون ہے، اور کہا جاتا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ 99 لوگوں کو آزاد جانے دیا جائے، بجائے اس کے کہ ایک بے گناہ کو سزا دی جائے۔انہوںنے کہا کہ اس کیس میں رولز اینڈ ریگولیشنز تو پڑھے نہیں ہیں، اگر پڑھے ہیں تو ان کو نہیں پتہ کہ طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟۔محمود سدوزئی نے بتایا کہ کسی بھی شخصیت کو جب باہر سے کوئی تحفہ ملتا ہے، اس کے لیے کسٹم کا پرنسپل اپریزر وہ اس کی قدر کی اپریزمنٹ کرتا ہے، اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ یہ پیسے دے دیجئے اور تحفہ لے جائیں، گھڑی باقاعدہ اپریزمنٹ کے بعد بانی پی ٹی آئی کو ملی۔انہوںنے کہا کہ اپریزر کا بیان ریکارڈ پر نہیں، اسی طرح ملٹری سیکرٹری کا بیان ریکارڈ پر نہیں ، گزشتہ روز انہیں سائفر کیس میں بھی سزا سنائی گئی۔ماہر قانون محمود سدوزئی نے کہا کہ سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی کا بیان جج صاحب لکھ رہے ہیں، انہوں (بانی پی ٹی آئی)نے کہا کہ میں خود بتائوں گا کہ میرا کیا بیان ہے، جبکہ شاہ محمود قریشی کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا اور ان کو سزا ہو گئی، تو یہ اس انصاف کو دفن کر رہے ہیں۔انہوںنے کہا کہ ہمارے عدالتی نظام میں اس قدر برے نظائر موجود ہیں، جو دنیا کے کسی قانون میں نہیں ہیں، یہ کیس بھی اسی طرح ہے، یہ بھی وہی ڈرامہ ہے، کوئی نئی چیز نہیں اور یہ حقائق اور قانون کے خلاف ہے۔ایڈووکیٹ اویس احمد نے کہا کہ اگر ملزمان موجود نہیں بھی ہیں، تو فیصلہ سنایا جاسکتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں اور بھی بہت سارے معاملات ہیں، توشہ خانہ کیس میں ابھی تو ان کے 342 کے تحت بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوئے، ٹرائل ہی مکمل نہیں ہوا۔انہوںنے کہا کہ آرٹیکل 10 اے کے تحت تو یہ آئین سے غداری ہے، یہ آرٹیکل بنیادی حقوق میں شامل ہیں کہ قانونی عمل مکمل ہونا چاہیے، اس کا مطلب ہے کہ ایک شخص کو سزا دینے کے لئے آئین کو اٹھا کر پھینک دیا گیا ہے، یہ معاملہ آگے جانے والا ہے۔اویس احمد نے کہا کہ ٹرائل نا مکمل ہونے کی صورت میں جس طرح یہ سزا سنائی گئی ہے، یہ برقرار نہیں رہ سکے گی، اپیل دائر ہو اور عدالت زرا بھی قانون اور آئین کا احترام کرے تو یہ سزا 5 منٹ میں معطل ہو جائے گی۔