پاکستان مزید پناہ گزینوں کا متحمل نہیں ہوسکتا،خطے کے ممالک افغانستان کے معاملے پر اپنا کردار ادا کریں

مغربی طرز کے خواتین کے حقوق کی پاسداری افغانستان میں ممکن نہیں

اسلام آباد  (ویب ڈیسک)

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے تاہم پاکستان تنہا ایسا نہیں کرسکتا، ہم خطے کے تما م ممالک کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں تاہم افغانستان کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے جلد یا بدیر انہیں افغانستان کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ جتنا افغانستان میں استحکام ہو گا اتنا ہی بین الاقوامی دہشت گردتنظیموں کے لئے افغانستان میں پنپنے کا امکان کم ہو گا ۔ پاکستان میں پہلے سے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں، ہم مزید پناہ گزینوں کے متحمل نہیں ہوسکتے ،ان خیالات کااظہار وزیر اعظم عمران خان نے فرانسیسی جریدے کے صحافی لی فگاروکے ساتھ انٹرویو میں کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ افغانستان کو 40 سال چیلنجز کا سامنا رہا اور ہماری خواہش ہے خطے کے ممالک افغانستان کے معاملے پر اپنا کردار ادا کریں، 4 کروڑ عوام کا مستقبل بچانا ہے تو افغان حکومت کو تسلیم کرنا ہوگا،

۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کے تمام ہمسائیہ ممالک مل کر کوئی اقدام کریں ، اگر پاکستان، طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالہ سے کوئی تنہا اقدام اٹھاتا ہے تواس کا ہم پر  بہت زیادہ بین الاقوامی دبائو آجائے گا۔ ہم پہلے معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھرا ہونے کی کوشش کررہے ہیں، جب میری حکومت آئی تو  ملک دیوالیہ تھا اورہمارے پاس واجبات اداکرنے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ اس وقت ہماری ساری توجہ اپنی معیشت پر ہے، ہماری معیشت اسی صورت بہتر ہو گی جب ہمارے دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں گے۔ اس لئے آخری چیز جو ہم نہیں چاہیں گے وہ عالمی تنہائی ہے، یعنی کہ ہم واحد ملک ہوں جو طالبان کو تسلیم کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم چار کروڑ افغانوں کی فلاح وبہبود کے خواہاں ہیں توافغان حکومت کو جلد یا بدیر تسلم کرنا ہے، کیونکہ اس وقت کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ جب پچھلی دفعہ طالبان حکومت میں آئے تھے تواس وقت شمالی اتحاد کے ساتھ تنازعہ چل رہا تھاتاہم اس وقت افغانستان میں کوئی تصادم نہیں ہے جو کہ40سال بعد یہ پہلا موقع ہے ملک میں کوئی تصاد م نہیںہے، سوائے چھوٹی موٹی دہشت گرد تنظیوں کے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جتنا افغانستان میں استحکام ہو گا اتنا ہی بین الاقوامی دہشت گردتنظیموں کے لئے افغانستان میں پنپنے کا امکان کم ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے تاہم پاکستان تنہا ایسا نہیں کرسکتا، ہم خطے کے تما م ممالک کے ساتھ مشاورت کررہے ہیں تاہم افغانستان کے لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے جلد یا بدیر انہیں افغانستان کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ شرائط کیا ہیں، جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں اس بات پر بین الاقوامی اتفاق رائے ہے، ایک یہ کہ جامع حکومت ہونی چاہیئے، دوسرا انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق ، طالبان حکومت نے دونوں کا وعدہ کیا ہے، انہوں نے انسانی حقوق کی بات کی ہے اور انہوں نے جامع حکومت کی بات کی ہے۔ سوال یہ ہے طالبان ایسا کیا کریں کہ جس سے دنیا مطمئن ہو کہ طالبان نے شرائط پوری کردی ہیں، دراصل یہ اس وقت صورت حال ہے اورطالبان اس وقت دونوں شرائط کو تسلم کر چکے ہیں۔ کوئی ٹھوس یقین دھانی تو نہیں مگر انہوں نے اصولی طور پر اتفاق کیا ہے ، وہ اس بابت کس طرح آگے بڑھیں گے؟اگر کوئی افغانوں کے کردار سے واقف ہے تو اسے یہ احساس ہونا چاہیئے کہ وہ بہت ہی فاخر لوگ ہیں اور آپ انہیں مجبور نہیں کرسکتے، وہ بیرونی مداخلت سے نفرت کرتے ہیں، 2001میں پاکستان ان تین ملکوں میں شامل تھا جنہوں نے افغانستان کو تسلیم کیا تھا، اس کے باوجود جب پاکستان نے طالبان سے یہ کہنے کی کوشش کی کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکیوں کے حوالہ کردیں تو انہوں نے صاف انکارکردیا تھا، اس لئے ایک حد تک ہی بیرونی دبائو کسی حکومت پر اثر انداز ہو سکتا ہے، خاص طور پر ایسی حکومت جو طالبان کی طرح بہت زیادہ آزادی پسند ہے۔ صرف متنبہ کرنے کے لئے کہ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اس عمل کے لئے آپ انہیں مجبور کرسکتے ہیں کہ ان کے مطابق جامع حکومت اورانسانی حقوق کی پاسداری میں تیزی لانے کے لئے مجبور کرسکتا ہے تو ایساہونے والا نہیں اور ہمیں توقع بھی نہیں کرنی چاہیئے،

 

کیونکہ خواتین کے حقوق کے حوالہ سے افغانستان کے لوگ کیا سوچتے ہیں اور مغرب میں خواتین کو کیا حقوق حاصل ہیں ان دونوں کے درمیان ایک بڑا خلاء ہے، اس لئے ایسا نہیں ہونیو الا، اگر خواتین کے لئے مغربی طرز کے حقوق یہ توقع کررہے ہیں تو افغانستان میں ایسا نہیں ہو گا۔ تاہم وہ اس پربات پر راضی ہیں کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے، کم ازکم یہ ایسا ایک نقطہ ہے جب وہ یہاں آئے توانہوں نے اس پر اتفاق کیا، انہوں نے کہا کہ ہم ضروری وقت لے رہے ہیں اورموضوع حالات کاانتظارکررہے ہیں تاہم وہ اس بات سے متفق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں تین گروپ سرگرم تھے، پہلا ٹی ٹی پی، دوسرے بلوچ علیحدگی پسند اور تیسرا داعش۔ طالبان کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف ان کی سرزمین استعمال نہیں ہوگی، ہمیں بھروسہ ہے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پہلے سے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں، خدشہ ہے پاکستان میں پناہ گزینوں کا سیلاب امڈ آئے گا، پاکستان مزید پناہ گزینوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔وزیراعظم نے بھارت میں موجودہ صورتحال کے حوالے سے کہاکہ بھارت جس سمت میں جارہا ہے میں اپنے تمام بھارتی دوستوں کے حوالہ سے پریشان ہوں۔ ایک پڑھے لکھے بھارتی کے لئے اس وقت بھارت میں پلنا بڑھنا باعث تشویش ہوگا، بھارت میں آر ایس ایس کے نظریے پر کام ہورہا ہے وہاں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے، وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں، میں نے امن کے لیے مودی کی طرف ہاتھ بڑھایا مگر بدقسمتی سے مودی آر ایس ایس کے انتہا پسند نظریے کا حامی ہے،وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے تعلقات خراب کیے، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر بے چینی پائی جاتی ہے۔  بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے تعلقات خراب کیے، بھارت نے یکطرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت تبدیل کی، بھارت نے کشمیر کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا، بھارت کی حکومت کا نظریہ ہی نفرت کا ہے۔ ایسی حکومت کا سامنا ہے جو ہندو توا نظریے سے متاثر ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت سے پڑوسیوں جیسے تعلقات چاہتے ہیں مگر واحد وجہ مسئلہ کشمیر ہے، ہم نے بھارتی جہاز کو مار گرایا اور ان کے پائلٹ کو بھی واپس بھیجا جس کا مقصد یہ تھا کہ جارحیت نہیں چاہتے تھے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات 5 اگست کا اقدام واپس لینے سے مشروط ہے، بھارت 5 اگست کا اقدام واپس لے لے ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ بھارت کو کشمیر کی حیثیت بحال کرنا ہوگی، جو اس نے کیا وہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ اگر بھارت اپنی من مانیاں کرے گا تو یہ دونوں طرف کشمیریوں کے لیے نقصان دہ ہو گا جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اقدامات سے خطے میں بے چینی پائی جاتی ہے۔انہوںنے کہاکہ سنکیانگ بھی چین کا حصہ ہے یہ کوئی متنازع علاقہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں، امریکا کے ساتھ کچھ معاملات پر ہمیشہ ردعمل دیتا رہا ہوں، ہمیشہ امریکا سے کہا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں ہے۔ امریکا کے افغانستان میں مقاصد واضح نہیں تھے۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیئے تھا، پاکستان اور امریکا کے مشترکہ مفادات ہیں، امریکا پہلے القاعدہ سے نمٹنے کے لیے افغانستان آیا تھا، افغان بحران بے قابو ہوا تو یہ پوری دنیا کو پھر لپیٹ میں لے لے گا۔انہوں نے کہا کہ امریکا پر الزام نہیں لگاتا، ہمارے عوام کے مفادات کا تحفظ ملکی قیادت کی ذمہ داری تھی۔ میں سمجھتا ہوں 1991 کے بعد امریکا نے پاکستان کو استعمال کیا، پاکستان میں پہلی بار کلاشنکوف کا کلچر آیا۔ جارج بش نے بھی کہا تھا پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے مگر انہوں نے پھر وہی کیا،فرانس سے متعلق سوال پر وزیر اعظم نے کہا کہ فرانس پاکستان کے لیے بہت اہم ہے کیوں کہ پاکستان کی نصف برآمدات یورپ کو جاتی ہیں، میرا مقصد ملک کو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے میں فرانس کے صدر سے دو طرفہ تعلقات پر بات کرنا چاہوں گا، فی الحال دورے کا کوئی پروگرام طے نہیں ہے لیکن فرانس کا دورہ کرنا چاہوں گا۔انہوں نے کہا کہ فرانسیسی صدر میکرون سے مل کر دو طرفہ تعلقات پر بات کرنا چاہتا ہوں، دو بار ان سے فون پر بات چیت ہوچکی ہے۔