Wide view of the Hall during the opening of the meeting.86th plenary meetingElection of five non-permanent members of the Security Council [item 112(a)](a) By-election (A/71/896)(b) Election of five non-permanent members of the Security Council

استنبول عمل کے آٹھویں اجلاس کا افتتاح….

وزیر خارجہ نے درپیش مسائل کے حل کیلئے تین نکات اور ٹھوس کارروائی پر مبنی حکمت عملی پیش کردی

اسلام آباد( ویب  نیوز)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے استنبول پراسیس کے آٹھویں اجلاس کا افتتاح کردیا جس کا موضوع اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی قرارداد16/18 کی دسویں سالگرہ :جائزہ اور آگے کی طرف پیش رفت رکھا گیا ہے۔ پاکستان نے جینیوا سے ورچوئل طریقے سے اجلاس کا انعقاد کیا۔اپنے کلیدی خطاب میں وزیر خارجہ نے اجاگر کیا کہ پالیسیوں کی جانچ پڑتال، عوامی عہدیداروں کے اشتعال انگیز بیانیے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا غلط استعمال دنیا بھر میں مذہبی عدم برداشت، متعصبانہ رویوں اور تشدد کے واقعات میں اضافے کے بنیادی عوامل ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد خاص طور پر مسلمان اور اسلام اس عفریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔اس موقع پر وزیر خارجہ نے عصر حاضر کے ان مسائل سے بچا واور تدارک کے لئے تین نکات اور ٹھوس کارروائی پر مبنی حکمت عملی پیش کی جس میں، ایک) ریاست کے امتیازی قوانین، پالیسیز اور جاری اقدامات کا ازسرنوجائزہ اور نظر ثانی، دو)بین المذاہب ہم آہنگی، برداشت اور پرامن بقائے باہمی کے فروغ کے علاوہ نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لئے قانونی رکاوٹوں کی تشکیل شامل ہے۔ اس حکمت عملی کا تیسرا نکتہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے عالمی قانون کی تیاری کی تجویز دی جس کے ذریعے امتیازی ومتعصبانہ ایسے خیالات اور اظہار پرپابندی عائد کی جائے جس سے مذہبی عدم برداشت پھیلتی ہے اورنفرت انگیزی کے نتیجے میں تشدد کے اقدامات جنم لیتے ہیں۔ترکی کے وزیرخارجہ، او۔آئی۔سی کے سیکریٹری جنرل،اقوام متحدہ کے لئے برطانیہ کے وزیرمملکت ، امریکہ کے جمہوریت و انسانی حقوق کے لئے انڈر سیکریٹری، یورپی یونین کے انسانی حقوق کے لئے نمائندہ خصوصی، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے صدر، انسانی حقوق کے لئے اقوام متحدہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر، اقوام متحدہ کے تہذیبوں کے لئے اتحاد کے اعلی نمائندے کے علاوہ او۔آئی۔سی کے سابق سیکریٹری جنرل پروفیسر اکمل الدین احسان اولو نے افتتاحی نشست میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ریاستوں، بین الحکومتی تنظیموں، سول سوسائیٹی، مختلف مذاہب کے راہنماں، مرکزی اور سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے 200 کے قریب شرکانے ورچوئل اجلاس میں شرکت کی۔ پورادن جاری رہنے والے اجلاس کے پینل مذاکروں میں گزشتہ دس سال کے دوران ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا، عصر حاضر میں پائے جانے والے خدشات وتحفظات کا تجزیہ ہوگا اور ان درپیش مسائل سے نبردآزما ہونے اور ان کے تدارک کے لئے طریقے تلاش کئے جائیں گے۔استنبول پراسیس کے آٹھویں اجلاس کی میزبانی سے وزیراعظم عمران خان کے وژن کی روشنی میں مکالمے کے فروغ اور مذہبی عقائد رکھنے والے افراد کے خلاف اشتعال انگیزی و تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لئے ٹھوس ریگولیٹری اقدامات کی منظوری کی حوصلہ افزائی کرنے کا پاکستان کا عزم نمایاں ہوتا ہے۔پاکستان جینیوا میں او۔آئی۔سی کے انسانی حقوق کے امور کے کوآرڈینیٹر کے طور پر سال 011 2میں منظور کردہ انسانی حقوق کونسل کی قرارداد 16/18 پر سیاسی اتفاق رائے بنانے کے لئے قائدانہ کردار ادا کررہا ہے جس میں مذہب یا عقیدے کی بناپر فرد یا طبقات کے خلاف متعصبانہ رویوں اورتشدد کے تدارک کے لئے آٹھ نکاتی ایکشن پلان وضع کیاگیا ۔جولائی 2011 میں استنبول پراسیس شروع کرنے میں پاکستان بھی ایک کلیدی فریق تھا جو قرارداد16/18 پر عمل درآمد کا پلیٹ فارم ہے۔ پاکستان ترکی، برطانیہ اور امریکہ سمیت اس عمل کی راہبری کرنے والے چار ممالک کا حصہ ہے۔