ایم کیو ایم نے بھی پیکا ترمیمی آرڈیننس کی مخالفت کردی

حکومت کو کس سے خوف ہے، آرڈیننس کی حمایت نہیں کی جاسکتی،خالد مقبول صدیقی

پارلیمنٹ کی موجودگی میں آرڈیننس سے کام چلانا حکومت کی شکست ہے

بعض اوقات شراکت داری کی حکومت میں پیچیدہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے

عوام جانتے ہیں کہ کون لیاری گینگ وار کی سرپرستی کرتا تھا اور کون دوبارہ کراچی کو جرائم کی آماجگاہ بنا رہا ہے

وزیراعلی سندھ کے پاس اٹھارویں ترمیم کے بعد نوٹ گننے سے فرصت نہیں ہے،،کراچی میں میڈیا سے گفتگو

کراچی(ویب  نیوز) ایم کیو ایم پاکستان کے کنو نیئرڈاکٹرخالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ایسا آرڈیننس جس سے بنیادی حقوق کی حق تلفی ہو اسکی ایم کیو ایم کسی صورت حمایت نہیں کرسکتی۔کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ اس طرح کے آرڈیننس سے حکومت اپنے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو کس سے خوف ہے، آرڈیننس کی حمایت نہیں کی جاسکتی، اس آرڈیننس سے کام نہیں چلے گا، پارلیمنٹ کی موجودگی میں آرڈیننس سے کام چلانا حکومت کی شکست ہے۔انہوں نے کہا کہ بعض اوقات شراکت داری کی حکومت میں پیچیدہ صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، ایم کیو ایم پاکستان خود صحافیوں کے ساتھ مل کر جعلی خبروں کے خلاف ہتک عزت کا دعوی کرے گی۔خالد مقبول نے کہا کہ کراچی میں جوکچھ صحافی کے ساتھ ہوا اس پر صرف مذمت کافی نہیں اطہر متین کے قتل کی ایف آئی آر سندھ حکومت کیخلاف درج ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز اور قتل کی وارداتوں میں حالیہ اضافے کے حوالے سے کہنا تھا کہ جو اس وقت سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی کی حالت ہے وہ پریشان کن ہے، یہ سارے جرائم سرکاری سرپرستی میں ہو رہے ہیں۔ عوام جانتے ہیں کہ کون لیاری گینگ وار کی سرپرستی کرتا تھا اور کون دوبارہ کراچی کو جرائم کی آماجگاہ بنا رہا ہے، جرائم کے خلاف عدالتوں کو سو موٹو ایکشن لینا چاہئے۔خالد مقبول کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعلی سندھ کے پاس اٹھارویں ترمیم کے بعد نوٹ گننے سے فرصت نہیں ہے، جب تھانے فروخت ہوں گے تو جرائم تو بڑھیں گے، مسئلے کا حل یہ نہیں کہ رینجرز کو تھانے کے اختیارات دے دئیے جائیں، نئے تجربے نہ کیے جائیں، مقامی پولیس کے بغیر ان غیر مقامی ڈاکوئوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کے نظام انصاف پر ہمارا موقف دینا مناسب نہیں، صورتحال دیکھ رہے ہیں آگے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ایک اور سوال کے جواب میں  ان کا کہنا تھا کہ میں نے بھی سنا ہے کہ وزیراعظم آنا چاہتے ہیں اگر وہ آئیں گے تو انہیں خوش آمدید کہیں گے اور سارے معاملات ان کے سامنے رکھیں گے۔