اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں، میں نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی بلوں پر دستخط نہیں کئے، صدر مملکت

اپنے عملے سے کہا تھاکہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت میں واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے

میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے،صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا ٹویٹ

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے  دانستہ طور پر بل کی منظوری میں تاخیر کی۔وزارت قانون اور انصاف

صدر مملکت کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں یا تو وہ اسے منظور کریں یا اسے اپنے اعتراض کے ساتھ پارلیمان کو بھیج دیں

آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔اس فوری نوعیت کے معاملے میں کسی بھی اختیار پر عمل نہیں کیا گیا

صدر مملکت نے اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا۔ صدر مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہئے۔ وزارت قانون اور انصاف

اسلام آباد (ویب  نیوز)

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ان خیالات کااظہار صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اتوار کے روز ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں کیا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا تھا کہ میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں۔ تاہم مجھے آج پتہ چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔اللہ سب جانتا ہے، وہ انشا اللہ معاف کر دے گا۔ لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔

پاکستان کی وزارت قانون اور انصاف نے صدر پاکستان کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر نے دانستہ طور پر بل کی منظوری میں تاخیر کی۔وزارت قانون اور انصاف نے اتوار کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت جب صدر کو کوئی بل منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو ان کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں۔ یا تو وہ اسے منظور کریں یا اسے اپنے اعتراض کے ساتھ پارلیمان کو بھیج دیں۔ آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔اس فوری نوعیت کے معاملے میں کسی بھی اختیار پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ صدر مملکت نے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی۔بلوں کو تحفظات یا منظوری کے بغیر واپس کرنے کا اختیار آئین میں نہیں دیا گیا، ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے۔اگر صدر مملکت کے بل پر تحفظات تھے تو وہ اپنے تحفظات کے ساتھ بل واپس کر سکتے تھے جیسے کہ انہوں نے ماضی قریب اور ماضی میں کیا، وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔یہ تشویشناک امر ہے کہ صدر مملکت نے اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا۔ صدر مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہئے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن نہیں دیتا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ بلوں کو تحفظات یا منظوری کے بغیر واپس کرنے کا اختیار آئین میں نہیں دیا گیا، ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے۔صدر مملکت کے بل پر تحفظات تھے تو وہ اپنے تحفظات کے ساتھ بل واپس کر سکتے تھے جیسا کہ انہوں نے ماضی قریب اور ماضی میں کیا، وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔وزارت قانون نے مزید کہا ہے کہ یہ تشویشناک امر ہے کہ صدر نے اپنے ہی عملے کو مورد الزام ٹھہرانے کا انتخاب کیا۔ صدر مملکت کو اپنے عمل کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اتوار کو آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 پر دستخط کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے عملے نے ان کے حکم کے خلاف کام کیا۔اتوار کو ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں صدر عارف علوی نے لکھا: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔بقول صدر مملکت: میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں، تاہم مجھے آج پتہ چلا کہ میرا عملہ  میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔