پٹرولیم مصنوعات میں حالیہ اضافے کو واپس لے کرمنی بجٹ میں عائد زائد ٹیکسوں کو ختم کیاجائے۔جماعت اسلامی پاکستان
گورنر سٹیٹ بنک کو برطرف کیاجائے اور سٹیٹ بنک ترمیمی بل واپس لیاجائے۔
حکومت سودی معیشت ختم کرے اور وفاقی شرعی عدالت کے حق سماعت کی مخالفت اور سودی قوانین کی برقراری کے اپنے موقف کو واپس لے
حکومت بدترین مہنگائی اور سودی معیشت کاخاتمہ نہیںکرسکتی تو استعفیٰ دے کر گھر جائے تاکہ نئے انتخابات کاراستہ ہموار ہوسکے
مرکزی مجلسِ شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان کے معاشی صورتحال بارے قرارداد میں مطالبات
لاہور (ویب ڈیسک)
جماعت اسلامی پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات میں حالیہ اضافے کو واپس لیاجائے، منی بجٹ میں عائد زائد ٹیکسوں کو ختم کیاجائے۔ گورنر سٹیٹ بنک کو برطرف کیاجائے اور سٹیٹ بنک ترمیمی بل واپس لیاجائے۔ حکومت سودی معیشت ختم کرے اور وفاقی شرعی عدالت کے حق سماعت کی مخالفت اور سودی قوانین کی برقراری کے اپنے موقف کو واپس لے۔ یہ مطالبات مرکزی مجلسِ شوریٰ جماعت اسلامی پاکستان کی معاشی صورتحال منظور کی گئی قرارداد میں کئے گئے،قرارداد میں کہا گیا ہے کہموجودہ حکومت نے اپنی نااہلی ، بدترین طرز حکمرانی اور ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو عملاً عالمی ساہوکارمالیاتی اداروں یعنی ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا غلام بنا دیا ہے اورقوم میں یہ احساس مسلسل بڑھ رہاہے۔ حکمران اس وقت ملک کو قسطوں میں فروخت کررہے ہیںاور اس طرح پاکستان کی معیشت ہی نہیں سلامتی ، سا لمیت ،خود مختاری ، آزادی اور دفاعی صلاحیت بھی عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھ دی گئی ہے جبکہ ہماری موٹرویزاور ائیرپورٹس بھی ضمانت کے طور پر عالمی مالیاتی اداروں کے پاس رہن ہیں۔ عالمی دباؤ پر سٹیٹ بنک کو عالمی مالیاتی اداروں کی تحویل میں دے دیاگیاہے۔ گورنر سٹیٹ بنک کی تقرری،احتساب ، تنزلی ، کارکردگی روپے کی قدر اور بنک کی مالیاتی پالیسیوں کے سلسلہ میں خود قانون سازی کرکے اپنے ہاتھ کا ٹ کر عالمی مالیاتی اداروں کے حوالے کردیئے گئے ہیں۔ اب سٹیٹ بنک محض نام کی حد تک سٹیٹ بنک آف پاکستان ہے۔ گزشتہ دنوں آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرضہ حاصل کرنے کے لیے منی بجٹ پیش کیاگیا۔ جس کے ذریعے پہلے سے زندہ درگور عوام پر 360ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کابوجھ لاددیا گیاہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق اشیائے صرف کی قیمتوں میں متعدد مرتبہ بدترین اضافوں کے ذریعے ساڑھے تین سالوں میں اکثر اشیاء کی قیمتیں دو گنا ہی نہیں تین گنا ہوچکی ہیں۔ اس وقت پاکستان کی پوری تاریخ کی بدترین مہنگائی قوم پر مسلط ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 4فیصد کمی کے باوجود پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ کیاگیاہے۔ تابعداری کا یہ عالم ہے کہ پٹرول کی قیمت میں 12روپے 3پیسے کے اضافے کی ہدایت ملی ہے تو اس پر من و عن عمل کیاگیااور عوام کو 3پیسے کی چھوٹ بھی نہیں دی گئی۔ایک مرتبہ پھر بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 6.40روپے کا اضافہ کیاجارہاہے۔ آٹا،چینی ، خوردنی تیل ، پٹرولیم مصنوعات ، کھاد ، ادویات وغیرہ کی قیمتیں متعددمرتبہ کے اضافوں کی وجہ سے آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ عوام کے گھروں کے چولہے سرد ہیں۔ لوگ بھوک کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پر مجبور بنادیئے گئے ہیں۔ یقیناً بھوک سے ستائے اور غربت کے مارے عوام کی آہیں اور بددعائیں عرش الٰہی کو بھی ہلا رہی ہیں۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والے حکمرانوں نے مزید سوا دو کروڑ افراد کو روزگار سے محروم کردیا ہے ۔ جن میں پانچ لاکھ ڈگری ہولڈ ربھی شامل ہیں جبکہ پچاس لاکھ گھروں کے وعدے کرنے والوں نے عوام کو جھونپڑیوں سے بھی محروم کردیا ہے۔ بجلی ، گیس کی قیمتیں اپنی تاریخ کی بدترین سطح پر ہیں ۔یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ہر بڑے معاشی بحران کے پیچھے خود حکومتی وزراء موجود ہیں۔ چینی کے مصنوعی بحران کے ذریعے حکومتی وزراء سمیت چینی مافیا نے عوام کی جیبوں پر 184ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا ہے جبکہ آٹا مافیا نے 220ارب روپے لوٹے ہیں۔توانائی بحران پیداکرکے IPPSکو عوام سے 350ارب روپے لوٹنے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ ایل این جی سیکنڈل کے ذریعے 100ارب روپے لوٹے گئے ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں 13مرتبہ اضافہ ہواہے۔ سنگ دلی کی انتہا یہ ہے کہ کووڈ کے امدادی فنڈ میں سے بھی 300ارب روپے لو ٹ لیے گئے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں ناقابل تصور کمی ہوئی اور اب ڈالر کاتبادلہ 122کی بجائے 170روپے میں ہوتاہے۔حقیقت یہ ہے کہ ہماری معیشت کی گاڑی اناڑی ڈرائیور کے ہاتھوں میں تیزی سے ڈھلوان پر جاری ہے اور بد قسمتی سے اس کی بریکیں بھی فیل ہوچکی ہیں۔کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ افراد کے محاسبے کے نعرے کی بنیاد پر برسراقتدار آنے والی حکومت نے خود کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کرپشن کے لحاظ سے 117نمبر سے ترقی کرکے 140نمبر پر پہنچ چکا ہے ۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ کرپشن کی روک تھام میں انٹی کرپشن ،نیب ،ایف بی آر پبلک اکائونٹس کمیٹیوں سمیت تمام ادارے مکمل طور پر ناکام ہیں۔ لوٹی ہوئی دولت کا ایک ڈالر بھی قومی خزانے میں واپس نہیں آیا جبکہ قوم کو کبھی پانا مہ لیکس کے ذریعے 436اور پنڈورا لیکس کے ذریعے 700سے زائد کرپٹ پاکستانیوں کے نام معلوم ہوتے ہیں۔ اب سوئس بنک کے اکاؤنٹس کی لیکس کے ذریعے 1400پاکستانیوں کے نام سامنے آنے کی بھی خبریں ہیں۔ ان افراد کے خلاف حکومت نیب یا کسی ادارے نے کوئی کاروائی نہیں کی جبکہ یہ صرف جماعت اسلامی ہے جس نے کرپشن فری پاکستان تحریک چلائی ۔ کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ کیا ، دھرنے دیئے۔ عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کرپٹ مافیا اتنا مضبوط ہے کہ اس نے اپنے خلاف عملاً کوئی کاروائی نہیں ہونے دی۔ اس موقع پر جماعت اسلامی اللہ کاشکراداکرتی ہے اور قوم کو باور کرانا چاہتی ہے کہ اس کے کسی ایک فرد کے خلاف کرپشن کا کوئی جھوٹاالزام تک بھی موجود نہیں۔ بدترین معاشی صورت حال کمر توڑ مہنگائی ، مسلسل بڑھتی ہوئی بے روز گار ی ، غربت وبدحالی اور قرضوں کی بھرمار کابڑا سبب سودی معیشت ہے۔ سود کے خلاف اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ جب کہ حکمران قوم کو رزق حرام کھلانے اور سودی معیشت کو برقرار رکھنے پر بضد ہیں ۔ مختلف معاشی ماہرین کے مطابق قومی قرضہ 56ہزار ارب روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔جس میں سے 127ارب ڈالر کاغیر ملکی قرضہ شامل ہے ۔ یہ قرضے ہمارے جی ڈی پی کے 93.70فیصد کے برابر ہیں۔ اس سال کے بجٹ میں ہم نے قرضوں کے سود کے لیے اپنے عوام سے ریونیو اکٹھا کرکے 30035ارب روپے سود کی ادائیگی کی ہے۔آج پاکستان کابڑامسئلہ بدترین مہنگائی اور ظالمانہ کرپشن ہے۔ جماعت اسلامی نے حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے سودی معیشت آئی ایم ایف کی غلامی منی بجٹ ، سٹیٹ بنک کی خود مختاری اور بدترین مہنگائی کے خلاف سینٹ آف پاکستان اور قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مسلسل آواز اٹھائی ہے۔ اسی طرح محترم امیرجماعت اور دیگر قائدین اس معاشی غلامی کے خلاف سخت ترین بیانات دے رہے ہیں۔ نیز جماعت اسلامی ملک کے مختلف شہروں میں101دھرنوں کے ذریعے دکھ کے مارے عوام کی آواز کو بلند کررہی ہے۔ جب کہ ماضی میں برسراقتدار رہنے والی جماعتوں نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر آنے والے منی بجٹ کی منظوری اور سٹیٹ بنک کی خودمختاری جیسے عالمی ایجنڈے میں حکومت کا ساتھ دیا ہے اور صرف جماعت اسلامی مخالفت کرتی رہی ہے۔ مرکزی مجلس شوریٰ کایہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ :١۔ پٹرولیم مصنوعات میں حالیہ اضافے کو واپس لیاجائے۔٢۔منی بجٹ میں عائد زائد ٹیکسوں کو ختم کیاجائے۔٣۔ گورنر سٹیٹ بنک کو برطرف کیاجائے اور سٹیٹ بنک ترمیمی بل واپس لیاجائے۔ ٤۔حکومت سودی معیشت ختم کرے اور وفاقی شرعی عدالت کے حق سماعت کی مخالفت اور سودی قوانین کی برقراری کے اپنے موقف کو واپس لے۔٥۔مرکزی مجلس شوریٰ یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ اگر حکومت آئی ایم ایف کی غلامی کاراستہ ترک کرکے بدترین مہنگائی اور سودی معیشت کاخاتمہ نہیںکرسکتی تو استعفیٰ دے کر گھر جائے تاکہ نئے انتخابات کاراستہ ہموار ہوسکے۔ n جماعت اسلامی پاکستان نے محض تنقید کرنے کی بجائے معیشت کی بہتری کے لیے ہمیشہ متبادل تجاویز دی ہیں۔ اب بھی ہم سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف پر انحصار کا خاتمہ،سودی معیشت سے مکمل نجات ، ارتکاز دولت کی حوصلہ شکنی،حرام ذرائع سے دولت کمانے پر مکمل پابندی،سٹے بازی، قمار بازی، ذخیرہ اندوزی ، شاہانہ اخراجات ،مصنوعی طریقہ سے قیمتیں بڑھانے کے عمل کا مکمل خاتمہ انتہائی ضروری ہے ۔اسی طرح ……١۔قرآن و سنت کی بنیادوں پر اسلامی معیشت کا نفاذ …n قرضوں کی معیشت پر مکمل پابندی n بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ایکڑز میںپھیلی ہوئی سرکاری رہائش گاہوں کی اراضی بیرون ملک پاکستانیوں کو زرمبادلہ میں ادائیگی کی شرط پر پُر کشش قیمتوں پر فروخت کرنے۔ n قانون وراثت پر اس کی روح کے مطابق مکمل عمل اور دولت کی منصفانہ تقسیم ۔ nبرآمدات میں اضافہ اورغیر ضروری درآمدات کا خاتمہ n زراعت کی فی ایکٹر پیداوار میں اضافہ اور کاشتکار کو مزید سہولتیں ۔ نیزسندھ سمیت تمام صوبوں میں دریائی پانی کی منصفانہ تقسیم ۔nصوبوں کی مشاورت سے نئے این ایف سی ایوارڈ کا فیصلہ نیز بلدیاتی اداروں کو بجٹ کا اجراء nکم از کم شرح سے ٹیکس عائد کرکے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ۔ امیروں پر براہ راست ٹیکس میں اضافہ او رغریبوں پر بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی ۔nتنخواہ دار طبقہ کی تنخواہوں اور مزدوروں کی اجرت میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ۔ جیسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے قیام کو اپناحقیقی مشن بنانے والی کوئی خداخوف، باصلاحیت، دیانتدار حکومت اوراس کی ماہرین معیشت پر مشتمل ٹیم ہی معیشت میں انقلابی تبدیلی کرسکتی ہے۔n جماعت اسلامی پاکستان قوم کو یقین دلاتی ہے کہ اگر قوم اسے اپنے اعتماد سے نوازے تو وہ پوری یکسوئی اور محنت سے معیشت کو موجودہ دلدل سے نکال کر ترقی و استحکام کے راستے پر گامزن کرسکتی ہے۔