تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کیلئے اپوزیشن ایک پیج پر ہے،شاہد خاقان عباسی
جتنا اعتماد پیپلز پارٹی سے ہمیں چا ہئے اور جتنا اعتماد ان کو ہم سے چاہئے،اتنا اعتماد الحمد اللہ موجود ہے
اگر صدر مملکت نے نظام کے اندر رکاوٹیں کھڑی کیں تو ان کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے پر بھی غور ہوسکتا ہے
میری ذاتی رائے ہے کہ ملک کو چلانے کے لئے عوام سے ایک نئے مینڈیٹ کی ضرورت ہے،نجی ٹی وی سے گفتگو
اسلام آباد ( ویب نیوز)
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کیلئے اپوزیشن ایک پیج پر ہے۔ ان خیالات کا اظہار شاہد خاقان عباسی نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں کیا ۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اگر صدر صاحب کا رویہ وہ نہ رہا جو ہونا چاہئے اور اگر انہوں نے نظام کے اندر رکاوٹیں کھڑی کیں توان کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے پر بھی غور ہوسکتا ہے ۔جہانگیر خان ترین توخود نااہل ہو چکے ہیں تاہم اگر ان کوئی گروپ ہے اورسیاسی طور پر ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے توبات چیت ہمیشہ ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اراکین اس دن نظرآئیں گے جس دن تحریک عدم اعتماد ہو گا نمبرز اس دن پتا چل جائیں گے ،ہمیں نو لوگ چاہئیں لیکن ہمارے پاس ز یادہ ہیںاور سب پی ٹی آئی کے ہیں ا، ابھی اتحادی کوئی نہیںآئے جب اتحادی آئے تو دیکھ لیں گے جو اپنی جماعت چھوڑ کر آرہے ہیں ان کو اپنی سیاست کا تسلسل چاہئے یہ سب موجودہ ایم این ایز ہیں اور باہر سے نہیں آئے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کسی بھی آدمی کے لئے بہت بڑااقدام ہوتا ہے کہ وہ اقتدارکو چھوڑ کراور اپنی جماعت کو چھوڑ کر اپوزیشن کا ساتھ دے ۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ فلور کراسنگ سیاسی نظام کی ضرورت ہوتی ہے اگر فلور کراسنگ پر پابندی ہو تو عدم اعتماد ہوتا نہیں ، جب ایسا وقت آئے جیسا آج ملک کے اندر ہے کہ جو حکومتی جماعت کے اتحادیوں کے جو ایم این ایز ہیں وہ کھلے عام کہتے ہیں کہ ہم اس حکومت کے بوجھ کے ساتھ عوام کے پاس نہیں جا سکتے۔ پی ٹی آئی کے جو اراکین ، اپوزیشن کو ووٹ دیں گے، پی ٹی آئی ان کو ڈی سیٹ کرانے کی کوشش کرسکتی ہے تاہم وہ نااہل نہیں ہوں گے اور ان کی سیٹوں پر ضمنی الیکشن ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ اپنی جماعت چھوڑ کرآئیں گے تو ہمیں ان کو اکاموڈیٹ کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اپنے اراکین کو اپوزیشن کی جانب سے 18،18کروڑ روپے کی آفر کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم آج کل اس قسم کی باتیں کرتے ہیں یہ آدمی وہ بات کر رہا ہے جس کے اپنے پارٹی کے بلوچستان کے صدر یا ر محمد رند نے ٹی وی پروگرام میں کہا ہے کہ باپ پارٹی عدم اعتماد پر ساڑھے تین ارب روپے لگے ہیں ، وزیر اعظم صاحب کو زیادہ علم ہو گا کہ پیسے لگتے ہیںمگر اللہ کا کرم ہے کہ ایک پیسہ بھی اس عدم اعتماد پر خرچ نہیں ہو گا ، اس لئے کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم اس حکومت کے ساتھ نہیں چل سکتے اس حکومت نے عوام کو تکلیف کے علاوہ کچھ نہیں دیا، ہم عوام کے پاس جانے کے قابل نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی آدمی کیلئے سب سے مشکل کا م یہ ہوتا ہے کہ جب وہ اقتدار چھوڑتا ہے ، پیسے وہ لو گ لیتے ہیں جو اقتدار میں جاتے ہیں، اقتدار چھوڑنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے ،انشاء اللہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی، اگر عدم اعتماد نہیں ہوتا اور حکومت قائم رہتی ہے توآپ پھر اس پر عدم اعتماد کر سکتے ہیں ، ماضی کا میرا تجربہ یہ ہے کہ جس حکومت کے خلاف عدم اعتماد ہو تو پھر اس حکومت کا چلنا مشکل ہو تا ہے کیونکہ جب اتنا بڑا آئینی اظہار اس کے خلاف ہو جاتا ہے تو پھر جیسی بھی ہے حکومت چلتی رہے گی پاکستان عوام کو برداشت کرنا پڑیگا لیکن دوسرا عدم اعتماد ہو سکتا ہے ،تیسرا عدم اعتماد ہو سکتا ہے ا س میں کوئی روکاوٹ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اتحادی جماعتوں کا ساتھ ہو نا عدم اعتماد کو زیادہ تقویت دیتا ہے ،ہم نے سب اتحا دیوں کو دعوت دی ہے کہ آج ملک کے حالات دیکھ لیں اور آپ اپنی سیاست دیکھ لیں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس حکومت کا ساتھ دینا نہ آپ کے مفاد میں ہیں نہ ملک کے مفاد میں ہیں اور اس حکومت کو گھر بھیجنے میں اپنا حصہ ادا کریں ۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت عدم اعتماد قومی اسمبلی میں ہو رہا ہے اور پنجاب کی اس میں کوئی بات نہیں ، اس حوالے سے بعد میں سوچاجائے گا حکومت تو ہر ایک کو ہائوس اریسٹ کرسکتی ہے کوئی نئی بات ان کے لئے نہیں ہے لیکن اپنے اراکین کو ہائوس اریسٹ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت ناکام ہو گئی اور اگر عدم اعتماد نہیں ہوتا تو اگلی بار عدم اعتماد ہو گا ، بجٹ پاس نہیں ہو گا، بہت سے مراحل آ تے ہیں اس لئے یہ چیزیں مستقل نہیں ہوتیں ۔ شاہد خاقان عباسی کا اپنی پارٹی تبدیل نہ کرنے کے سوال پر کہا کہ میں نے جب سے سیاست شروع کی ہے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہوں اور نواز شریف وہ قیادت ہے جس نے ہمیشہ ملک کے لئے کا م کیا اورملک کے حالات کو بہتر کیا ہے۔ مختلف قسم کے پریشر آتے ہیں ایک سیاسی جماعتوںکے اندر سے پر یشر آتے ہیں، عہدوں کی پیشکش ہوتی ہے لالچ دی جاتی ہے ، جب آمریت کے دور آتے ہیں اس کے اندر پریشر آتے ہیں تو یہ پریشر رہیں اور میرا ہمیشہ یہ خیا ل رہا ہے کہ استقامت ہی بہتر ہے تو میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ یہی سب سے بہتر قیادت ہے اور سب سے بہتر جماعت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ مفاد کے لئے اور عہدوں کے لئے جماعتیں بدلتے ہیں وہ بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ا پوزیشن ایک پیج پر ہے ،اپوزیشن اس بات پر متفق ہے کہ جو عدم اعتماد ہے اس کو کا میاب بنایا جا ئے اور سب کا مقصد ایک ہے اور جتنا اعتماد پیپلز پارٹی سے ہمیں چا ہئے اور جتنا اعتماد ان کو ہم سے چاہئے،اتنا اعتماد الحمد اللہ موجود ہے ۔انہوں نے کہاکہ اعتماد عمل سے ہوتا ہے، آج ایک عمل میں ہم اکھٹے ہیں اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے تو اعتماد بحال ہے ، کل ہم نے ایک دوسرے کے خلاف الیکشن بھی لڑنا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اس کے بعد بھی ایک اعتماد کی فضا سیاسی جماعتوں کے اندر بحال رہنی چاہئے اور آج ملک کی ضرورت بھی ہے ۔ عدم اعتماد آج ملک کی ضرورت ہے ملک نہیں چل رہا ملک مشکل میں ہے ور عوام کا بے پناہ دبائو ہے کہ ایک نئے الیکشن کی طرف جایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ اگر عدم اعتماد کا میاب ہو جائے تو اپوزیشن کے پاس دو، تین چوائسز ہیں ، ایک وہ حکومت بنائے اور پوری ٹرم چلائے ، یا حکومت بنائے اور جلدی الیکشن کرادے ، یا حکومت نہ بنائے تو پھرفوراََ الیکشن ہوجائیں گے ، اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ فوراََ الیکشن میں جانا چاہئے، آج ملک کو چلانے کے لئے عوام سے ایک نئے مینڈیٹ کی ضرورت ہے۔ AS
#/S