پاکستان  کیمپ پالیٹکس پر یقین نہیں رکھتا،چین، امریکا سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں،آرمی چیف

کسی دوسرے ملک سے تعلقات کو متاثر کئے بغیر امریکا کے ساتھ تعلقات کو توسیع دینا چا ہتے ہیں

پاکستان چاہتا ہے تمام دیرپا مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کومذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے حل کیا جائے

مسئلہ کشمیر کے ساتھ بھارت اور چین کے درمیان پانی کا تنازعہ بھی پاکستان کے لئے انتہائی تشویش کا باعث ہے

2001کے بعد پاکستان نے 90ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں دیں،150ارب ڈالرز سے زائد معاشی نقصان برداشت کیا

ہم نے بے شمار قربانیاں دے کر دہشت گردی پر قابو پایا، خطہ کی سکیورٹی اور استحکام ہماری پالیسی میں شامل ہے

پاکستان نے بار، بار مطالبہ کیا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں فوری طور پر سیزفائر کیا جائے

جنرل قمر جاوید باجودہ کا اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ کے موضوع پر منعقدہ دوروزہ کانفرنس سے خطاب

اسلام آباد (ویب  نیوز)چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ پاکستان کیمپ پالیٹکس پر یقین نہیں رکھتا،چین اور امریکا دونوں سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں، کسی دوسرے ملک سے تعلقات کو متاثر کیے بغیر امریکا کے ساتھ تعلقات کو توسیع دینا چا ہتے ہیں ،بھارت کی جانب سے میزائل کا پاکستان میں گرنا باعث تشویش ہے،پاکستان چاہتا ہے کہ تمام دیرپا مسائل بشمول مسئلہ کشمیر کومذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے حل کیا جائے ،مسئلہ کشمیر کے ساتھ بھارت اور چین کے درمیان پانی کا تنازعہ بھی پاکستان کے لئے انتہائی تشویش کا باعث ہے اورہم چاہتے ہیں کہ اس معاملہ کو مذاکرات اورسفارتکاری کے ذریعے جلد ازجلد حل کیا جائے، 2001کے بعد پاکستان نے 90ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں دی ہیں اور150ارب ڈالرز سے زائد معاشی نقصان برداشت کیا۔ ہم نے بے شمار قربانیاں دے کر دہشت گردی پر قابو پایا۔ خطہ کی سکیورٹی اور استحکام ہماری پالیسی میں شامل ہے۔ پاکستان نے بار، بار مطالبہ کیا ہے کہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں فوری طور پر سیزفائر کیا جائے اور ہم چاہتے ہیں تمام فریقین مسئلہ کا مذاکرات کے ذریعے پائیدار حل نکالیں۔ ان خیالات کااظہار چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجودہ نے اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ کے موضوع پر منعقدہ دوروزہ کانفرنس کے دوسرے روز اپنے خطاب میں کیا۔ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا کہ وہ تقریب میں شرکت پر تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ سکیورٹی ڈائیلاگ سے دوسری بار مخاطب ہونے پر وہ خوشی محسوس کررہے ہیں،ڈائیلاگ کے انعقاد پر قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید وسیم یوسف کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ خطہ کو غربت، ماحولیاتی تبدیلی اور دہشت گردی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اندرون ملک اور بیرون ملک امن کے حصول کے لئے پاکستانی فوج اوردیگر سکیورٹی اداروں نے دہشت گردی کی لعنت کو شکست دینے کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ 2001کے بعد پاکستان نے 90ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں دی ہیں اور150ارب ڈالرز سے زائد معاشی نقصان برداشت کیا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کو شکست دینے کا ہمارا عزم غیر متزلزل ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلح افواج کی بے لوث لگن ، مسلح افواج اور سول آرمڈ فورسز کی قربانیوں اوراپنی قومی کی مددسے ہم نے دہشت گردی کے خلاف شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں اوراس کے نتیجہ میں پاکستان کی اندرونی سکیورٹی صورتحال میں بے پناہ بہتری آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور پرتشدد انتہا پسندی کا خطرہ اس وقت تک موجود رہے گا جب تک ہم آخری دہشت گرد کا اپنے خطے سے خاتمہ نہ کریں،ہم دہشت گردی کے خلاف حاصل کی گئی کامیابیوں کی حفاظت کے لئے پُرعزم ہیں اور ہم نگران افغان اور دیگر ہمسایوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں تاکہ اس بات یو یقینی بنایا جاسکے کہ دہشت گرد تنظیمیں کسی بھی ملک کی سرزمین دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرسکیں۔ انہوں نے کہاکہ ایک پُرامن اور خوشحال مغرب اور جنوبی ایشیاء ہمارا مقصد ہے، ہم پاکستان کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے خواب کے مطابق جدید اور آگے بڑھنے والا ملک بنانے کے لئے پُرعزم ہیں اور اس حوالے سے کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس بات کااحساس ہے کہ ممالک نہیں بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خطوں میں امن واستحکام کا قیام مشترک ترقی اورخوشحالی کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے اور اس حوالے سے ہمارے مقاصد اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے لئے کھلے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پاکستان ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے،ہم نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ پاکستان نے افغان عوام کے لئے انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لئے بین الاقوا می برادری کے ساتھ مل کر انتھک طریقہ سے کام کیا ہے تاہم ابھی اور بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ افغانستان کو بروقت انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کی جائے۔ اگر ہم افغانستان میں انسانی بحران پر قابوپانے میں ناکام رہتے ہیں تواس سے نہ صرف مہاجرین کے بحران کا خدشہ ہے بلکہ یہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردی کا مرکز بنانے کا سبب بنے گا اور داعش اپنے گلوبل ایجنڈا کے پھلے پھولے گی اورمزید کسی نائن الیون سے بھی بڑے سانحہ کا باعث بن سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پہلے ہی 40لاکھ کے قریب رجسٹرڈ اورغیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے اورہم اپنے افغان بہن بھائیوں کی میزبانی جاری رکھیں گے تاہم بین الاقوامی برادری کے ساتھ ایسا سازگار ماحول پیداکرنا چاہیں گے جس میں یہ مہاجرین بروقت اور باعزت طریقہ سے واپس افغانستان چلے جائیں۔ انہوںنے کہا کہ مشرقی بارڈر پرصورتحال تسلی بخش ہے اورگزشتہ ایک برس کے دوران لائن آف کنٹرول پر کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، جس کے باعث لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب بسنے والے افراد کو بڑا ریلیف ملا ہے۔ تاہم نو مارچ2022 کو بھارت کی جانب سے سپر سونک کروز میزائل پاکستان میں لانچ کیا جانا انتہائی تشویش کا باعث ہے۔یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہے کہ سپر سونک کروز میزائل ایک جوہری ملک سے دوسرے جوہری ملک میں آکر گرا ہے۔بھارت کی جانب سے فوری طور پر پاکستان کو میزائل لانچ کے حوالے سے آگا بھی نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ عالمی برادری اس بات کا نوٹس لے گی کہ اس میزائل کے پھٹنے سے پاکستان میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہو سکتا تھا یا میزائل کے قریب سے گزرنے والا مسافر طیارہ تباہ ہو سکتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس واقعہ کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے اور امید کرتے ہیں کہ بھارت پاکستان اور دنیا کو اس بات کا ثبوت فراہم کرے گا کہ اس کے ہتھیار محفوظ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان نے 2019میں بھارتی پائلٹ کو واپس کر کے اپنی ذمہ داری کا مظاہر ہ کیا تھا۔ZS

#/S