وفاقی شرعی عدالت سودی نظام  کے خلاف مقدمات کا فیصلہ  28اپریل کو سنائے گی

چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ  مقدمات کا فیصلہ سنائے گا

عدالت نے 12اپریل کو فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا

32 سال سے  زیر التواء ان مقدمات کی سماعت کے دوران وفاقی شرعی عدالت کے 13 چیف جسٹس صاحبان عہدوں سے سبکدوش ہوچکے

اسلام آباد (ویب نیوز)

وفاقی شرعی عدالت ملک سے سودی نظام معیشت کے خاتمے کیلئے دائر مقدمات میں محفوظ کیا گیا فیصلہ 28اپریل2022 کو سنائے گی۔ عدالت نے 12اپریل کو فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔32 سال سے  زیر التواء ان مقدمات کی سماعت کے دوران وفاقی شرعی عدالت کے 13 چیف جسٹس صاحبان عہدوں سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔  چیف جسٹس  محمد نور مسکان زئی14 ویں چیف جسٹس ہیں  جن کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ان مقدمات کا فیصلہ سنائے گا۔ بنچ کے دیگر ارکان  میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم ایم شیخ شامل ہیں۔کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر ابراہیم خان، ڈاکٹرفرید احمد پراچہ، جماعت اسلامی کے وکلاء قیصر امام، سیف اللہ گوندل، تحریک اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر محمد عاکف سعید،فقہ جعفریہ کے رہنما علامہ ساجد نقوی اپنے وکیل کے ہمراہ پیش ہوتے رہے ہیں۔

دستیاب معلومات کے مطابق ملک سے سودی نظام کے خاتمے کیلئے  پہلی درخواست 30جون 1990 کو دائر کی گئی جس کے بعد اس میں دیگر لوگوں نے بھی درخواستیں دائر کیں۔ مجموعی طورپر یہ 118 درخواستیں تھیں جن پر اس وقت کے چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان اور جسٹس ڈاکٹر عبیداللہ نے پہلا فیصلہ 14 نومبر 1991 کو سنایا۔ 700سے زائد صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں  وفاقی شرعی عدالت نے  حکومت کو حکم دیا تھا کہ 30اپریل 1992 تک ملک سے سودی نظام  کا خاتمہ کیا جائے۔وفاقی حکومت نے شرعی عدالت کے  اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تاہم سپریم کورٹ میں وفاق کی اپیل1999تک زیر التواء رہی۔ 23دسمبر1999کو سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ 23جون 2000ء تک شرعی عدالت کے  فیصلے پر عملدرآمد  یقینی بنائے۔ تاہم وفاقی حکومت نے  پہلے تو عملدرآمد  کی مدت میں اضافے کی درخواستیں دائر کیں لیکن بعد میںسال 2002ء میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کردی۔ جس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی شریعت ایپلٹ بینچ نے 24 جون 2002ء کو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل کرکے کیس واپس ریمانڈ کرتے ہوئے شرعی عدالت کو بجھوا دیا اور ہدایت کی کہ کیس کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لے کر دوبارہ فیصلہ کیا جائے۔تقریباً20 سال قبل جب یہ مقدمہ ریمانڈ کرکے بجھوایا گیا اس وقت سے  اب تک9چیف جسٹس عہدوں سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ موجودہ 10ویں چیف جسٹس موجود ہیں۔ اس عرصے کے دوران عدالت کی طرف سے کیس میں مقرر کیے گئے کئی معاونین اور کئی درخواست گزار دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔ عدالت نے  بعد میں رحلت کرجانے والے اور کیس کی پیروی نہ کرنے والے  درخواست گزاروں کی  درخواستیں کیس سے الگ کرتے ہوئے خارج کردی تھیںتاہم اب بھی50 سے زائد درخواست گزاران موجود ہیں کیس ریمانڈ  ہوکر واپس آنے کے 20 سال بعد اس کیس کا فیصلہ محفوظ کیا گیا ہے۔ جو 28اپریل کو سنایا جائے گا۔ عدالت نے کیس کا فیصلہ سنانے کیلئے جماعت اسلامی پاکستان سمیت دیگر مذہبی جماعتوں ، تحریک اسلامی، فقہ جعفریہ، جمعیت اہلحدیث، اور دیگر کو نوٹس جاری کردئیے ہیں۔