رباہ کی موجودہ تمام صورتیں ممنوع ،حکومت ملکی قوانین میں موجود انٹرسٹ کا لفظ ختم کرنے کیلئے قانونی ترامیم کرے
31دسمبر 2027تک تمام سودی نظام ختم کیا جائے،امیدہے حکومت فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنائے گی ، عدالتی فیصلہ
تین سو بیس صفحات پر مشتمل فیصلے کا احکامات پر مشتمل حصہ جسٹس ڈاکٹرسید محمد انورشاہ نے کھلی عدالت میں پڑھ کر سنایا
اسلام آباد (ویب نیوز)
وفاقی شرعی عدالت نے 20سال بعد سود ی نظام معیشت کے خلاف دائرمقدمات کا فیصلہ سناتے ہوئے سود کے لئے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اورشقوں کوغیرشرعی قراردے دیاہے اور حکومت کو سودی نظام کے مکمل خاتمے کیلئے پانچ سال کی مہلت دے دی۔چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی ، جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے جمعرات کو وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے 12اپریل کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا، تین سو بیس صفحات پر مشتمل فیصلے کا احکامات پر مشتمل حصہ جسٹس ڈاکٹرسید محمد انورشاہ نے پڑھ کر سنایا ، عدالت نے قرار دیا کہ مقدمہ کے تمام فریقین ، اٹارنی جنرل، مذہبی سکالرز ، علما اور مفتیان کرام کو تفصیلی طور پر سنا گیا ہے ، عدالت نے قراردیا کہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ کی جانب سے دو دہائی قبل ریمانڈ کرکے بھجوایا گیا تھا ۔ عدالت کا کہنا تھا کہ انٹرسٹ فری بینکنگ قابل عمل بینک کاری ہے ، یہ عدالت وفاقی حکومت سے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتی جس میں وفاق نے کہا تھا کہ یہ قابل عمل نظام نہیں ہے ۔ عدالت نے قراردیا کہ ملک میں رباہ سے پاک بینکاری بھی ہورہی ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا قانون بھی سود ست پاک بینکاری کی اجازت دیتا ہے ، عدالت نے قراردیا کہ رباہ کو ختم کرنا مذہبی اور آئینی فریضہ ہے اور اسلامی نظام معیشت قابل عمل طریقہ کار ہے اس سے ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم ہو گی ۔ عدالت کا فیصلے میں کہنا ہے کہ اسلامی نظام معیشت رباہ کی ممانعت کرتا ہے اور رباہ کی روک تھام ہی اسلامی نظام معیشت کی بنیاد ہے اس فیصلے کی تفصیلی وجوہات دی گئی ہیں قرآن و سنت کی روشنی میں رباہ کی ممانعت کی گئی ہے ملک کا نظام رباہ کے تحت چل رہا ہے ۔لیکن ربا مکمل طور پر ہر صورت میں غلط ہے، عدالت نے حکومت کو اندرون و بیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رباہ سے پاک نظام زیادہ فائدہ مند ہوگا،پاک چین اقتصادی راہداری کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا ہے کہ سی پیک کیلئے چین بھی اسلامی بنکاری نظام کا خواہاں ہے،فیصلے میں کہا کہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے عدالت کا کہنا تھاکہ ہماری متفقہ رائے ہے کہ رباہ کی موجودہ تمام صورتیں ممنوع ہیں اس لئے حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ملکی قوانین میں جہاں بھی انٹرسٹ کا لفظ آتا ہے اسے ختم کیا جائے شرعی عدالت نے یکم جون 2022 سے انٹرسٹ لینے سے متعلق تمام شقوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ ان قوانین میں ترمیم کی جائے ، عدالت نے قراردیا کہ دوران سماعت اٹارنی جنرل کا ایک موقف یہ بھی تھا کہ مروجہ نظام کو تبدیل کرنے کیلئے مناسب وقت دیا جانا چاہیئے ، عدالت نے قراردیا کہ شرعی عدالت کے پہلے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے وقت میں سپریم کورٹ نے بھی توسیع دی تھی دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کیلئے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے،، عدالت کا کہنا تھاکہ ہم سمجھتے ہیں کہ معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے میں وقت لگے گا تاہم ڈیپازٹ کو فوری طور پر ربا سے پاک کیا جا سکتا ہے، عدالت نے کہا ہے کہ دوران سماعت جب فریقین سے وقت دیئے جانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو فریقین کی رائے میں یکسانیت نہیں تھی عدالت کا احساس ہے کہہ نظام کی ترانفارمیشن میں وقت لگے گا ، عدالت نے قراردیا کہ اسٹیٹ بنک کے سٹریٹیجک پلان کے مطابق 30% فیصد بینکنگ اسلامی نظام پر منتقل ہو چکی ہے اور سلامی اور سود سے پاک بنکاری نظام کیلئے پانچ سال کا وقت کافی ہے اس لئے حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ 31دسمبر 2027تک تمام سودی نظام ختم کیا جائے عدالت نے امید کا اظہار کیا کہ حکومت اس فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنائے گی ، عدالت کا کہنا تھاکہ توقع ہے حکومت سود کے خاتمے کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کرے گی،عدالت کا کہنا تھا کہیہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ رباہ کا ملک سے خاتمہ بہت پہلے ہوجانا چاہیئے تھا لیکن یہ عمل سست رہا ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں تمام فریقین کے وکلا ، سیاسی مذہبی جماعتوں ، علما اور دیگر معاونین کی بھر پومعاونت پر ان کی تعریف بھی کی ہے۔یاد رہے کہ سود ی نظام معیشت کے خلاف درخواستیں جماعت اسلامی سمیت دیگرجماعتوں سمیت 86فریقین نے دائر کی تھیں۔ملک کی اعلیٰ عدالتوں32 سال سے زیر التوا ان مقدمات کی سماعت کے دوران وفاقی شرعی عدالت کے 13 چیف جسٹس صاحبان عہدوں سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔چیف جسٹس محمد نور مسکان زئی14 ویں چیف جسٹس ہیں جن کی سربراہی میں تین رکنی بنچ ان مقدمات کا فیصلہ سنایا۔ بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم ایم شیخ شامل ہیں۔کیس کی سماعت کے دوران جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر ابراہیم خان، ڈاکٹرفرید احمد پراچہ، جماعت اسلامی کے وکلا قیصر امام، سیف اللہ گوندل، تنظیم اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر محمد عاکف سعید،فقہ جعفریہ کے رہنما علامہ ساجد نقوی اپنے وکیل کے ہمراہ پیش ہوتے رہے ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق ملک سے سودی نظام کے خاتمے کیلئے پہلی درخواست 30جون 1990 کو دائر کی گئی جس کے بعد اس میں دیگر لوگوں نے بھی درخواستیں دائر کیں۔ مجموعی طورپر یہ 118 درخواستیں تھیں جن پر اس وقت کے چیف جسٹس ڈاکٹر تنزیل الرحمن کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان اور جسٹس ڈاکٹر عبیداللہ نے پہلا فیصلہ 14 نومبر 1991 کو سنایا۔ 700سے زائد صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ 30اپریل 1992 تک ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ وفاقی حکومت نے شرعی عدالت کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تاہم سپریم کورٹ میں وفاق کی اپیل1999تک زیر التوا رہی۔ 23دسمبر1999کو سپریم کورٹ نے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ وہ 23جون 2000 تک شرعی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ تاہم وفاقی حکومت نے پہلے تو عملدرآمد کی مدت میں اضافے کی درخواستیں دائر کیں لیکن بعد میں سال 2002 میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کردی۔ جس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی شریعت ایپلٹ بینچ نے 24 جون 2002 کو وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ معطل کرکے کیس واپس ریمانڈ کرتے ہوئے شرعی عدالت کو بجھوا دیا اور ہدایت کی کہ کیس کے مختلف پہلوں کا جائزہ لے کر دوبارہ فیصلہ کیا جائے۔تقریبا20 سال قبل جب یہ مقدمہ ریمانڈ کرکے بجھوایا گیا اس وقت سے اب تک9چیف جسٹس عہدوں سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ موجودہ 10ویں چیف جسٹس موجود ہیں۔ اس عرصے کے دوران عدالت کی طرف سے کیس میں مقرر کیے گئے کئی معاونین اور کئی درخواست گزار دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔