• اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے،وفاقی شرعی عدالت

اسلام آباد (ویب نیوز)

وفاقی شرعی عدالت نے خواجہ سرا ایکٹ کیخلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا۔قائمقام چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین پر مشتمل دورکنی بینچ نے محفوظ فیصلہ سنایا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے،خواجہ سرا مرد یا عورت نہیں کہلوا سکتے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ حکومت خواجہ سرائوں کو تمام حقوق دینے کی پابند ہے،اسلام خواجہ سراوں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے،حکومت اس بات کی پابند ہے ایسے افراد کو طبی تعلیمی معاشی سہولیات فراہم کرے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ جنس کا تعلق انسان کی باہیولاجیکل سیکس سے ہوتا ہے،شریعت کسی کو نامرد ہوکر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی۔ عدالت نے سیکشن 2N(3) کو خلاف شریعت قرار دیدیا ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے جنس تبدیل نہیں کر سکتا، جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کے وقت تھی، نماز، روزہ، حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے، جنس کا تعین انسان کی feelings کی وجہ سے نہیں کیا جا سکتا۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے قراردیا ہے کہ اسلام میں خواجہ سرائوں کا تصور اور اس حوالے سے احکامات موجود ہیں،ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2این شریعت کیخلاف نہیں،خواجہ سرا تمام بنیادوں حقوق کے مستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں،اسلام بھی خواجہ سرائوں کو تمام بنیادی حقوق فراہم کرے ہے،خواجہ سرائوں کی جنس کی تعین جسمانی اثرات پر غالب ہونے پر کیا جائے گا،جس پر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہوگا۔عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کا سیکشن 3 اور سیکشن 7 بھی خلاف شریعت قراردے دیا۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ سیکشن 7 کے تحت مرضی سے جنس کا تعین کرکے کوئی بھی وراثت میں مرضی کا حصہ لے سکتا تھا،وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے، مرد یا عورت خود کو بائیولاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سرا کہے تو یہ غیرشرعی ہوگا۔ وفاقی شرعی عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کی سیکشن 2F بھی کالعدم قرار دیدی۔ عدالت نے ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تحت بننے والے رولز بھی غیرشرعی قرار دیدیے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قراردیا ہے کہ غیرشرعی قرار دیے گئے دفعات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔