پی ٹی آئی کے 25 منحرف ارکان ڈی سیٹ قرار، الیکشن کمیشن کے تین رکنی بنچ کا متفقہ فیصلہ

ڈی سیٹ ہونیوالوں میں  راجہ صغیر احمد، ملک غلام رسول سنگا، سعید اکبر خان، محمد اجمل، علیم خان، نذیر چوہان ودیگر شامل

الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا

آج گھناونی سیاست کا ایک اور باب بند ہوگیا ،اسدعمر

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہو سکتی ہے، اپیلیں دائر کرنے کا فیصلہ مشاورت کے بعد ہوگا۔ وکیل منحرف اراکین اسمبلی خالد اسحق

اسلا م آباد(  ویب نیوز)

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز کو وزیراعلی کا ووٹ دینے والے تحریک انصاف کے 25 منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کر دیا۔ الیکشن کمیشن کے تین رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ سنایا جس نے منحرف ارکان اسمبلی کے خلاف سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے بھیجے گئے ریفرنس پر فیصلہ سنایا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے تحریک انصاف کے منحرف ارکان کے خلاف ریفرنس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے بتایا کہ اتفاق رائے سے منحرف ارکان کو ڈی سیٹ قرار دیا گیا ۔الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک انصاف کے اراکین حمزہ شہباز شریف کو ووٹ دے کر منحرف ہوئے۔الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی روشنی میں فیصلہ اتفاق رائے سے سنایا، تحریک انصاف کے منحرف ارکان پنجاب اسمبلی تاحیات نااہلی سے بچ گئے اور الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے ڈی سیٹ ہونے والے 25 منحرف اراکین پنجاب اسمبلی کی فہرست بھی سامنے آ گئی ۔تحریک انصاف کے جو اراکین پنجاب اسمبلی سے ڈی سیٹ ہوئے ان میں راجہ صغیر احمد، ملک غلام رسول سنگا، سعید اکبر خان، محمد اجمل، علیم خان، نذیر چوہان، محمد امین ذوالقرنین، ملک نعمان لنگڑیال، محمد سلمان، زوار وڑائچ، نذیر احمد خان، فدا حسین، زہرہ بتول، محمد طاہر، عائشہ نواز، ساجدہ یوسف، ہارون عمران گل، عظمیٰ کاردار، ملک اسد، اعجاز مسیح، سبطین رضا، محسن عطا خان کھوسہ، میاں خالد محمود، مہر محمد اسلم اور فیصل حیات شامل ہیں۔ڈی سیٹ ہونے والوں میں 16 ارکان کا تعلق ترین خان گروپ سے ہے جبکہ 5 ارکان کا تعلق علیم خان گروپ اور 4 ڈی سیٹ ہونے والے ارکان کا تعلق اسد کھوکھر گروپ سے ہے۔ڈی سیٹ اراکین کے حلقے اس طرح سے ہیں،راجہ صغیر، پی پی 7 راولپنڈی،ملک غلام رسول سانگھا، پی پی 83 خوشاب،سعید اکبر نوانی، پی پی 90 بھکر،محمد اجمل چیمہ، پی پی 97 فیصل آباد، عبد العلیم خان، پی پی 158 لاہور،نذیر چوہان، پی پی 167 لاہور،امین ذوالقرنین، پی پی 170 لاہور،ملک نعمان لنگڑیال، پی پی 202 ساہیوال،سلمان نعیم، پی پی 217 ملتان،زوار حسین وڑائچ، پی پی 224 لودھراں،نذیر احمد خان، پی پی 228 لودھراں،فدا حسین، پی پی 237 بہاولنگر،زہرا بتول، پی پی 272 مظفر گڑھ،لالہ طاہر، پی پی 282 لیہ،اسد کھوکھر، پی پی 168 لاہور،محمد سبطین رضا، پی پی 273 مظفر گڑھ،محسن عطا خان کھوسہ، پی پی 288 ڈی جی خان،میاں خالد محمود، پی پی 140 شیخوپورہ،مہر محمد اسلم، پی پی 127 جھنگ،فیصل حیات جبوانہ، پی پی 125 جھنگ،عائشہ نواز، ڈبلیو 322 مخصوص نشست،ساجدہ یوسف ڈبلیو 327 مخصوص نشست،عظمی کاردار ڈبلیو 311 مخصوص نشست،ہارون عمران گل، این ایم 364 اقلیتی نشست اوراعجاز مسیح، این ایم 365 اقلیتی نشست سے ہیں۔الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنماء اسد عمر کا کہنا تھا قوم کو مبارکباد دینا چاہتا ہوں کہ آج اس گھناونی سیاست کا ایک اور باب بند ہوگیا ہے، یہ لوگ پیسہ لگا کر حکومت میں آتے ہیں اور مزید پیسہ کماتے ہیں۔الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد منحرف اراکین اسمبلی کے وکیل خالد اسحق نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر ہو سکتی ہے اور قانون کے مطابق 30 دن میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ 90 دن میں اپیلوں پر فیصلہ کر سکتی ہے تاہم اپیلیں دائر کرنے کا فیصلہ مشاورت کے بعد ہوگا۔الیکشن کمیشن نے ایک روز قبل اس کیس میں مدعا علیہان کو نوٹس جاری کیے تھے۔کمیشن نے 17 مئی کو ریفرنس پر اپنا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا اعلان آئندہ روز(بدھ) کو 12 بجے کیا جائے گا تاہم بعد میں اس اعلان کو ملتوی کردیا گیا تھا۔الیکشن کمیشن کا فیصلہ خاص طور پر آئین کے آرٹیکل 63 (اے) کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اہم ہے جو رواں ہفتے کے اوائل میں آیا تھا۔آرٹیکل 63 )اے(قانون سازوں کو ‘وزیر اعظم یا وزیر اعلی کے انتخاب کے سلسلے میں، یا اعتماد کا ووٹ یا عدم اعتماد کا ووٹ، یا منی بل یا آئینی)ترمیمی( بل پر’ پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹ دینے)یا پرہیز کرنے( سے روکتا ہے۔اس آرٹیکل کی تشریح میں عدالت عظمی نے کہا تھا کہ پارٹی کی ہدایت کے خلاف ڈالے گئے ووٹوں کو شمار نہیں کیا جاسکتا اور انہیں نظر انداز کیا جانا چاہیے۔پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹوں نے حمزہ شہباز کو اکثریت حاصل کرنے میں مدد دی، انہوں نے مجموعی طور پر 197 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ سادہ اکثریت کے لیے 186 ووٹ درکار تھے۔یوں اگر پی ٹی آئی کے قانون سازوں کے 25 ووٹ ان کی تعداد سے نکال دیے جائیں تو وہ اپنی اکثریت کھو بیٹھے ہیں۔دوسری جانب پی ٹی آئی اور مسلم لیگ )ق (کے چوہدری پرویز الہی نے سپریم کورٹ کی تشریح کی روشنی میں حمزہ شہباز کے انتخاب کو ‘غیر قانونی’ قرار دینے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔حمزہ شہباز کے 16 اپریل کو وزیر اعلی منتخب ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے 25 اراکین صوبائی اسمبلی کو منحرف قرار دینے کا اعلامیہ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہی کو بھیجا تھا، جو وزیر اعلی کے لیے پی ٹی آئی،پی ایم ایل)ق(کے مشترکہ امیدوار بھی تھے۔اس کے بعد پرویز الہی نے الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجا تھا اور اس پر زور دیا تھا کہ ان قانون سازوں کو پارٹی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حمزہ شہباز کے حق میں ووٹ ڈال کر پی ٹی آئی سے منحرف ہونے پر ڈی سیٹ کیا جائے۔آئین کے آرٹیکل 63 اے کے مطابق کسی رکن پارلیمنٹ کو انحراف کی بنیاد پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔