سپریم کورٹ نے ای سی ایل سے نکالے گئے وزرا ء کی تفصیلات طلب کرلیں

120 دن کا اطلاق نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے دن سے ہوگا،اٹارنی جنرل

 کابینہ کے ارکان خود اس ترمیم سے مستفید ہوئے، وہ اپنے ذاتی فائدے کیلئے ترمیم کیسے کر سکتے ہیں؟،جسٹس اعجازالاحسن

 معلوم ہے کہ وفاقی وزرا ء پر ابھی صرف الزامات ہیں، کیا کوئی ضابطہ اخلاق ہے کہ وزیر ملزم ہو تو متعلقہ فائل اس کے پاس نہ جائے؟ ،جسٹس منیب اختر

 اعظم نذیر تارڑ جس شخص کے وکیل تھے اسی کو فائدہ پہنچایا، کیا طریقہ کار اپنا کر ای سی ایل رولز میں ترمیم کی گئی،جسٹس مظاہرعلی نقوی

وفاقی وزراء  کیخلاف فوجداری کارروائی چلتی رہنی چاہیے، فوجداری نظام سب کیلئے یکساں ہونا چاہیے،چیف جسٹس  عمر عطاء بندیال

 اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایگزٹ کنٹرول لسٹ(  ای سی ایل)سے نکالے گئے وزراء کی تفصیلات طلب کرلیں۔جمعہ کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے تحقیقاتی اداروں میں اعلیٰ حکومتی شخصیات کی مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ای سی ایل رول 2010 کا سیکشن دو پڑھیں، جن کے مطابق کرپشن، دہشت گردی، ٹیکس نادہندہ اور لون ڈیفالٹر باہر نہیں جا سکتے، کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن اور ٹیکس نادہندگان والے رول میں ترمیم کی؟ کیا وفاقی کابینہ نے رولز کی منظوری دی ہے؟، نیب کے مطابق ان سے پوچھے بغیر ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ کی منظوری کے منٹس پیش کردوں گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا 120 دن بعد ازخود نام ای سی ایل سے نکل جائے گا؟ ۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 120 دن کا اطلاق نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے دن سے ہوگا۔جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ کابینہ کے ارکان خود اس ترمیم سے مستفید ہوئے، وہ اپنے ذاتی فائدے کیلئے ترمیم کیسے کر سکتے ہیں؟، کابینہ ممبران کا نام ای سی ایل میں ہونا اور ای سی ایل رولز میں کابینہ کی ترمیم کیا مفادات کا ٹکرائو نہیں؟۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ معلوم ہے کہ وفاقی وزرا ء پر ابھی صرف الزامات ہیں، کیا کوئی ضابطہ اخلاق ہے کہ وزیر ملزم ہو تو متعلقہ فائل اس کے پاس نہ جائے؟ ملزم وزرا کو تو خود ہی ایسے اجلاس میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے بھی کہا کہ اپنے فائدے کیلئے ملزم کیسے رولز میں ترمیم کر سکتا ہے؟۔جسٹس اعجاز الاحسن  نے کہا کہ کیا سرکولیشن سمری کے ذریعے ایسی منظوری لی جا سکتی ہے؟ کابینہ کا کام ہے ہر کیس کا جائزہ لیکر فیصلہ کرے۔ عدالت نے ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب کر لیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے بعد نظرثانی کا طریقہ کار ہی ختم ہو گیا۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دیکھ لیتے ہیں کہ کیا وہ ممبران جن کے نام ای سی ایل میں تھے وہ ترمیم والے کمیٹی اجلاس میں موجود تھے یا نہیں، دراصل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ای سی ایل رولز میں ترمیم تجویز کی تھی۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ جس شخص کے وکیل تھے اسی کو فائدہ پہنچایا، کیا طریقہ کار اپنا کر ای سی ایل رولز میں ترمیم کی گئی؟۔چیف جسٹس آف پاکستان نے ہدایت کی کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ جمع کرائیں، فی الحال حکومت کے ای سی ایل رولز سے متعلق فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے رہے، قانون پر عمل کے کچھ ضوابط ضروری ہیں، انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرنا نہیں چاہتے۔عدالت میں وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے کیس میں ایف آئی اے افسران کے تبادلے سے متعلق ایف آئی رپورٹ پر بحث ہوئی۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے رپورٹ سے تاثر ملا کہ بہت سے معاملات کو غیر سنجیدہ اقدامات کے ذریعے کور کیا گیا، وزارت قانون نے 13 مئی کو سکندر ذوالقرنین سمیت ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو معطل کیا، بظاہر ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو کیس کی دو سماعتوں میں پیش نہ ہونے کی بنیاد پر معطل کیا گیا ، کیا آپ نے پراسکیوٹرز کو یہ کہا کہ آپ فارغ ہیں؟ پراسکیوٹرز کو تبدیل کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، انویسٹی گیشن آفیسر کو بھی بیماری کی وجہ سے تبدیل کیا گیا حالانکہ وہ تبدیل ہونے کے ایک مہینہ بعد بیمار ہوا۔جسٹس منیب اختر نے بھی کہا کہ کیا جن سماعتوں پر پیش نا ہونے پر پراسکیوٹرزکو معطل کیا گیا وہ نئی حکومت کے قیام کے بعد کی تھیں؟۔سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر لاء آپریشنز ایف آئی اے عثمان گوندل کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے پراسکیوشن ٹیم بظاہر مقدمہ کی کارروائی رکوانے کیلئے تبدیل کی گئی، آرٹیکل 248 وزرا ء کو فوجداری کارروائی سے استثنیٰ نہیں دیتا، وفاقی وزراء  کیخلاف فوجداری کارروائی چلتی رہنی چاہیے، فوجداری نظام سب کیلئے یکساں ہونا چاہیے۔عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔