ای سی ایل سے نکالے گئے افرادکوبیرون ملک جانے کیلئے اجازت لینا ہوگی، سپریم کورٹ
ایف آئی اے نے 40ہائی پروفائل مقدمات کا ڈیجیٹل ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرادیا ، نیب کو مہلت مل گئی
مروجہ طریقہ کا ر (ڈیوپراسس) پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہئے کوئی چیز مسلط نہیں کرنا چاہتے ، چیف جسٹس عمر عطابندیال
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ نے تفتیشی اداروں میں حکومتی مداخلت کے تاثر پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس میں قراردیا ہے کہ جن افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے ہیں ان کوبیرون ملک جانے کیلئے وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہوگی عدالت نے نیب کو دو ہفتوں میں اہم مقدمات کا ڈیجیٹل ریکارڈ جمع کرانے کی مہلت دیتے ہوئے حکومت کو ای سی ایل ایس او پیز کی تیاری کاٹاسک دیا ہے جبکہ ایف آئی اے نے 40ہائی پروفائل مقدمات کا ڈیجیٹل ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرادیا ہے ۔چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر کہنا تھاکہ جو ملزم بھی بیرون ملک جانا چاہیے تواسے وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہوگی کیونکہ ملک میں موجودہ حالات مختلف نوعیت کے ہیں ہے حکومت بنانے والی اکثریتی جماعت اسمبلی سے جا چکی ہے، چیف جسٹس ملک اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے سسٹم چلانے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا،یکطرفہ پارلیمان سے قانون سازی بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے،یہ کسی کیلئے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ہے،نظر رکھیں گے کوئی ادارہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے، چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس سے حکومت کو مشکلات ہوں،ہم چاہتے ہیں کہ مروجہ طریقہ کا ر (ڈیوپراسس) پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیئے ہم کوئی چیز مسلط نہیں کرنا چاہتے ۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے از خود نوٹس کی سماعت کا آغاز کیا تو اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے عدالت کو بتایا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن ان کی نمائندگی کریں گے کیونکہ وہ خود علیل ہیں ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے حکومت کی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم پر ان30 افراد کی فہرست جمع کرادی گئی ہے جو ای سی ایل سے نام نکلنے کے بعدملک سے باہر گئے اور واپس آگئے ہیں۔ عامر رحمن نے عدالت کو بتایا کہ 9جون کی سماعت کے فورا بعد اٹارنی جنرل آفس نے بھرپور انداز میں کام کیا ہے گذشتہ روز کابینہ کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے جس کے منٹس تیار ہونے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ ای سی ایل رولز کے حوالے سے رولز کی کابینہ کمیٹی نے منظوری دی؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی میں معاملہ زیرغور ہے، جس نے سرکاری کام سے باہر جانا ہے اسے اجازت ہونی چاہیے، جسٹس منیب اختر کا کہنا تھاکہ سمجھ نہیں آ رہی حکومت کرنا کیا چاہتی ہے،لگتا ہے حکومت بہت کمزور وکٹ پر کھڑی ہے،واضح بات کے بجائے ہمیشہ ادھر ادھر کی سنائی جاتی ہیں، ای سی ایل کے حوالے سے کوئی قانونی وجہ ہے تو بیان کریں،جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ ایسی کیا جلدی تھی کہ دو دن میں ای سی ایل سے نام نکالنے کی منظوری دی گئی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن کا کہنا تھاکہ کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل پر تھے، ماضی میں بھی اسی انداز میں ای سی ایل سے نام نکالے جاتے رہے، اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا کہنا تھاکہ کیا حکومت کا یہ جواب ہے کہ ماضی میں ہوتا رہا تو اب بھی ہوگا؟ چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ بااختیار افراد نے ترمیم کرکے اس سے فائدہ اٹھایا، قانونی عمل پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دینگے، کسی کو لگتا ہے کہ اس کے خلاف کیس میں جان نہیں تو متعلقہ عدالت سے رجوع کرے، وزیراعظم کی ضمانت حاصل کرنے کے اقدام کی تعریف اچھا لگا کہ وزیراعظم اور وزیراعلی نے خود پیش ہوکر ضمانت کرائی، چیف جسٹس نے کہاکہ ضمانت کے حکم نامے کا بھی جائزہ لینگے، چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ کابینہ ارکان نے تو بظاہر ای سی ایل کو ختم ہی کر دیا،ہم سارا سلسلہ اس لئے کررہے ہیں تاکہ قانون کے نظام میں ایسی تبدیلی نہ آجائے کہ لگے قانون نے بالکل آنکھیں بند کررکھی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ مروجہ طریقہ کا ر (ڈیوپراسس) پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیئے یہ ایک یونیک وقت ہے معاشی بحران کے شکار ملک کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ توازن برقرار رکھیں ہر ادارہ اپناکردار اداکرے ۔ ہم کوئی چیز مسلط نہیں کرنا چاہتے جس سے حکومت کیلئے مشکلات ہوں ۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ ای سی ایل میں شامل کسی وزیر نے ترمیم کی منظوری نہیں دی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا کہنا تھاکہ کیا آپ کی بات ریکارڈ کے مطابق ہے؟ سعد رفیق کی منظوری ریکارڈ کا حصہ ہے لگتا ہے آپ نے رپورٹ نہیں پڑھی ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ سعد رفیق نے کابینہ کمیٹی میں نظرثانی درخواست دائر کی تھی، ترمیم کا براہ راست سعد رفیق کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، سرکولیشن سمری میں رائے نہ بھی آئے تو اسے منظوری سمجھا جاتا ہے، سعد رفیق کے نام کے آگے ” یس ” اسی وجہ سے لکھا گیا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہاکہ کابینہ کمیٹی کیسے نظرثانی کر سکتی ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے شعر پڑھتے ہوئے کہاکہ بنے ہیں آپ ہی مدعی بھی منصب بھی، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھاکہ کابینہ کمیٹی خود قانون بناتی ہے خود ہی تشریح بھی کرتی ہے، اس دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے روسٹرم پر آکر کہاکہ چند دن میں رولز کے حوالے سے باضابطہ طریقہ کار وضع ہوجائے گا، ترمیم تک کوئی ملزم بغیر اجازت بیرون ملک نہیں جا سکے گا، اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی کہ نئے رولز میں متعلقہ اداروں کی مرضی سے ہی نامزد ملزم بیرون ملک جا سکے گا،اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ خود بعض اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں لیکن ہم یقینی بنائیں گے کہ کوئی شخص ملک نہیں چھوڑے گا ۔جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھاکہ عبوری انتظام میں بھی کرپشن کے ملزمان نیب کی اجازت سے ہی بیرون ملک جائیں گے،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ مفتاح اسماعیل ای سی ایل قواع میں ترامیم کے وقت بیرون ملک تھے،انہوں نے ترمیم پر کوئی رائے نہیں دی تھی۔ پراسیکوٹر جنرل نیب نے کہاکہ حکومت کو ای سی ایل پر اپنا موقف ایک حد تک دے دیا ہے تفصیلی موقف چند روز میں دے دیا جائے گا، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا کہنا تھا کہ نیب قوانین میں ایں سی ایل پر نام ڈالنے کا فیصلہ عدالت کرتی ہے نیب افسران ای سی ایل سے متعلق خود کوئی فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں حکومت صرف وقت حاصل کر رہی ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ملک چھوڑنے سے پہلے ملزم کو متعلقہ ادارے سے اجازت لینا ہو گادوران سماعت ڈی جی ایف آئی اے عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ40 ہائی پروفائل مقدمات کا سربمہر ریکارڈ پی ڈی ایف، یو ایس بی میں ڈال کرعدالت میں جمع کروارہے ہیں ۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ڈی جی ایف آئی اے سے سوال کیا کہ کہ آج تک کتنے مقدمات میں عدالتوں نے ایسے قبل از گرفتاری ضمانتیں منظور کی ہیں، ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھاکہ ایسے مقدمات کی تفصیلات عدالت سے لی جا سکتی ہیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ افسران کی تبدیلی سے متعلق عدالتی حکم بڑا سخت ہے اس میں نرمی ہونی چاہیے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ عدالتی حکم پراسیکوٹرز کی حد تک ہی ہے پھر بھی کسی کو تبدیل کرنا ناگزیر ہو تو درخواست دیں جائزہ لیں گے چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ حکومت ای سی ایل کے ضابطہ کار(ایس او پیز) کو مزید شفاف بنائے ، نیب حکام نے عدالت کو بتایا کہ مقدمات کا ریکارڈ ڈیجیٹلائز ہونے میں کافی وقت لگے گا اس لئے دو ہفتوں کا وقت دیا جائے جس پرعدالت نے نیب کو ریکارڈ جمع کروانے کیلئے بھی دو ہفتوں کی مہلت دے دی ، عدالت کا کہنا تھاکہ حکومت کو ای سی ایل کے ایس او پیزبنانے کیلئے وقت دے رہے ہیں حکومت ای سی ایل کیسز کو کیس ٹو کیس دیکھے اورٹرائل کورٹ میں مقدمات کی پیروی کی جائے چیف جسٹس نے کیس کی مزید سماعت 27 جون تک ملتوی کرتے ہوئے کہاکہ اس سماعت کا تحریری حکمنامہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔mk
#/S