ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد صدیقی کا سودی نظام کے خلاف شرعی عدالت کے فیصلے پر ازخود نوٹس کیلئے سپریم کورٹ کو خط

شرعی عدالت نے اسلامی بینکاری والے بینکوں کوشریعت سے متصادم قرار دیا

سود پر مبنی ڈپازٹس، فنانسنگ پروڈکٹس کو  شریعت کے مطابق قرار دیا

خط کے مندرجات

کراچی (ویب نیوز)

ممتاز ماہر معاشیات اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ اینڈ فنس کراچی کے چیئر مین ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے  سودی نظام کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کا ازخود نوٹس لینے کیلئے سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان کی شریعت ایپلٹ بینچ کو لکھے گئے خط میں عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ سود کے مقدمے میں وفاقی شرعی عدالت کے 28 ا پر یل 2022  کے اس فیصلے کا ازخودنوٹس لیں جس میں اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینکوں کے شریعت سے متصادم اور سودی عنصر پر مبنی ڈپازٹس اور فنانسنگ کی پروڈکٹس کو شریعت کے مطابق قراردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متعدد جید علما ، مسلم ماہرین معاشیات، قانون دان اور اسلامی بینکاری پر تحقیق کرنے والے اسلامی بینکوں کی متعدد پراڈکٹس کو غیر اسلامی یا سود پر مبنی قرار دیتے رہے ہیں ۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے کہا کہ پاکستان میں سب سے پہلے ہم نے کہا تھا کہ ملک میں 2002 سے شروع کیا جانے والا بینکاری کا متوازی نظام جس میں اسلامی بینک اور سودی بینک لمبی مدت تک ملک میں کام کرتے رہیں گے غیر اسلامی ہے اور ان بینکوں کو دراصل اسلامی بینک کہاہی نہیں جاسکتا۔ سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بینچ کو لکھے گئے خط میں یہ حقائق بیان کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ 1999 میں سود کے مقدمے میں عدالت عظمی کی دعوت پر خود ہم نے گزارشات پیش کی تھیں جن کا بینچ کے  سر براہ نے تفصیلی طور پر ذکر کرتے ہوئے ہماری اس تنبیہ کے الفاظ دہراتے ہوئے لکھا ہے کہ ” بلاسودی نظام پاکستان میں نا کام ہو جائے گا ۔ ڈاکٹر شاہد نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ ہماری یہ بات اس وقت درست ثابت ہوگئی جب پاکستان میں 2002 میں بہ یک جنبش قلم تقریبا 18 برسوں سے بلاسودی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے ان بینکوں کو سودی بینک قرار دے دیا گیا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان میں اسلامی بینکوں کے قیام کی اجازت دے دی گئی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اسلامی بینک بھی اپنے کھاتے داروں کا استحصال کر رہے ہیں اور ان کی فنانسنگ اور دوسری پروڈکٹس میں سود کا عنصر شامل ہوتا ہے جس کا اعتراف اسلامی بینکوں کے شریعہ بورڈز کی رپورٹوں میں بھی ملتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے مزید کہا کہ جس طرح 18 – برس بعد بلاسودی بینکوں کو کاروبار کرنے کے بعد سودی بینک قرار دے دیا گیا اسی طرح یہ خدشہ موجود ہے کہ اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے موجودہ بینکوں کو بھی آگے چل کر سودی بینک قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ اسلامی نظام معیشت وبینکاری کے لئے تباہ کن ہوگا اور اس کی تباہ کاریوں کا سوچ کر روح بھی کانپ جاتی ہے۔