عوام اور فوج میں فاصلے بڑھتے رہے تو سب کا نقصان ہوگا، کبھی فوج کو کمزور ہوتا نہیں دیکھ سکتا، طاقتور فوج اس ملک کی ضرورت ہے
چیرمین پی ٹی آئی کا اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب
اسلا م آباد (ویب نیوز)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے جمہوریت کے لیے اظہار رائے کی آزادی ضروری قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپنی اسٹبلشمنٹ اور فوج کو بچانے کے لیے تعمیری تنقید ضروری ہے۔عوام اور فوج میں فاصلے بڑھتے رہے تو سب کا نقصان ہوگا، میں کبھی فوج کو کمزور ہوتا نہیں دیکھ سکتا، طاقتور فوج اس ملک کی ضرورت ہے۔جرنیلوں اور لیڈرز کیلئے یوٹرن بہت ضروری ہوتا ہے، غلطی کو پہچان کر واپس آجانا چاہیے۔ شفاف انتخابات کے علاوہ پاکستان کے پاس دوسرا راستہ نہیں، ناکامی کو مسلط کریں گے تو قوم اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مزید فاصلے بڑھتے جائیں گے۔ اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مغربی ممالک کی جمہوریت دو بنیادوں پر کھڑی ہے، پہلے نمبر پر قانون کی بالادستی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب برطانیہ پر ہٹلر حملہ آور تھا تو چرچل کے پاس لوگ گئے اور پوچھا کہ کیا ہمارا ملک بچ جائے گا تو اس نے بجائے یہ کہنے کہ ہماری فوج کتنی تگڑی ہے جواب دیا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو ہم کبھی تباہ نہیں ہوسکتے۔ان کا کہنا تھا کہ دوسرا ان کی اخلاقیات اور قیادت کی اخلاقیات بڑے معیار کی ہیں جو میں نے پاکستان کے اندر نہیں دیکھی۔عمران خان نے کہا کہ تیسرا اظہار رائے کی آزادی ہے، ہائیڈ پارک میں اتوار کو جا کر کوئی بھی جو مرضی بولنا چاہتا تھا کہتا تھا لیکن عوامی سطح پر کسی کی کردار کشی پر بہت سخت قوانین ہیں اور میں نے بوتھم اور ایلن لیمب کے خلاف عدالت میں مقدمہ لڑا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے وہاں اتنے سخت معیار ہیں کہ اگر آپ کسی کی توہین کرتے ہیں تو ایک انسان کو اپنی عزت کے تحفظ کے لیے جو حق وہ پاکستان میں کبھی نہیں دیکھا۔ان کا کہنا تھا کہ انگریز جب یہاں سے واپس گیا تھا تو اس وقت بھی ہمارا اخلاقی معیار کافی بلند تھا لیکن آہستہ آہستہ نیچے چلی گئی، اس کی اصل وجہ قانون کی بالادستی نہ ہونا ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی اس لیے نہیں ہے کہ 64 سال میں آدھا فوجی آمروں نے حکومت کی اور آدھا ان دو خاندانوں نے حکومت کی ہے لیکن ان دونوں کے دور میں قانون کی بالادستی نہیں ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ جب ایک فوجی آمر ملک کو سنبھالتا ہے تو وہ خود بخود قانون توڑ دیتا ہے اور خود کو قانون سے بالا تر رکھتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ میڈیا کو کنٹرول کرے۔میڈیا پر پابندیوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے دور میں سوائے نجم سیٹھی کے خلاف ایک کیس کے کسی میڈیا پر کارروائی نہیں کی، نجم سیٹھی نے میری ذات پر حملہ کیا تھا اس لیے عدالت میں گیا۔ عمران خان نے کہا کہ تین چار مرتبہ کابینہ اجلاس میں بیٹھے تھے تو پتہ چلا کہ کسی صحافی کو اٹھا لیا گیا ہے، کسی کو بھی میرے احکامات پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ میرا مسئلہ یہ تھا کہ جعلی خبریں آتی تھیں، میرے وزرا کے بارے میں جھوٹی خبریں آئیں تو میں نے انہیں وٹس ایپ کیا کہ اپنا دفاع کرو لیکن وہ جھوٹی خبریں تھیں اور دو وزرا نے لندن میں جا کر مقدمہ کیا اور جیت کر آئے لیکن یہاں کچھ نہیں ہوا۔عمران خان نے کہا کہ ایک اور عنصر سوشل میڈیا آچکا ہے جہاں کئی مرتبہ غلیظ چیزیں آرہی تھیں، دراصل دنیا بھر میں یہ مسئلہ ہے اور بحث جاری ہے کہ اس سے کیسے نمٹنا ہے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ جھوٹی خبروں سے متعلق چیک اینڈ بیلنس ہوناچاہیے۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے تو سماجی مسائل پیدا ہوئے اور عافیہ صدیقی کو اٹھایا گیا اور لاپتہ افراد کا مسئلہ سامنے آیا جس کے لیے 2003 میں سب سے پہلے مظاہرہ میں نے کیا تھا۔چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ جب تک میں حکومت میں نہیں آیا اس وقت تک فوج کا نکتہ نظر معلوم نہیں تھا اس لیے اس کے خلاف بولتا رہا کیوںکہ جن کے رشتہ دار اٹھا لیے جاتے تھے تو وہ میرے پاس آتے تھے جو دردناک کہانیاں تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور میں لوگوں کو اٹھالیا جاتا تو قومی سلامتی کمیٹی میں آتا تھا اور میں نے جب جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی تھے تو آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے اس حوالے سے بات کی اور انہوں نے کئی لوگوں کو چھوڑا۔انہوں نے کہا کہ وہ کہتے تھے کہ عدالت میں مسئلہ آتا ہے کیونکہ ایک دہشت گرد کو عدالت لے کر جاتے ہیں تو ثابت کرنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے کہ ثبوت کہاں سے آتے ہیں، پھر امریکا اور انگلینڈ کی مثال دی جاتی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی ایسی چیز ہے کہ عدالتوں میں ان کو ثابت کرنا مشکل پڑ رہا تھا اور فوج ڈرتی تھی کہ آپ ان کو پھر چھوڑ دیں گے اور وہ دوبارہ ہمارے خلاف سرگرمیاں شروع کردیں گے، اس پر بھی ہم ایک نتیجے پر پہنچے تھے اور منظور کرنے لگے تھے کہ کسی بھی لاپتہ فرد کے بارے میں وقت دیں لیکن رشتہ داروں کو تو پتہ ہو لیکن یہ ان کا نکتہ نظر تھا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں طاقت ور فوج ایک بڑا اثاثہ ہے، اس کو ہمیں بچانا ہے کیونکہ گر عوام اور فوج کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں جو بڑھ رہے ہیں تو اس سے فوج اور پاکستان کونقصان ہے۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری اسٹبلشمنٹ کو تفریق کرنا چاہیے کہ کب آپ تعمیری تنقید کر رہے ہیں اور کب نقصان پہنچا رہے ہیں، جب ایک اسٹبلشمنٹ کی مداخلت یہ ہوتی ہے کہ صحافیوں کو پکڑ رہے ہیں اور جب سمجھیں فوج پر تھوڑی تنقید ہوئی ہے تو کارروائی کی تو اس سے فوج کو نقصان پہنچے گا، اس سے فائدہ نہیں ہوگا اور معلومات رک نہیں سکتیں۔حکومتی تبدیلی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کوئی یہ سوال پوچھے کہ واضح طور پر بند کمرے میں جو بھی فیصلہ ہوا ہے اور حمایت کرنے گئے ہیں کیا یہ پاکستان کا فائدہ ہے۔عمران خان نے کہا کہ ایک کرپٹ حکومت کی حمایت کرنے سے کتنا نقصان ہو رہا ہے کیا اسٹبلشمنٹ کو نظر نہیں آرہا ہے اور کیا یہ ٹھیک کام کر رہے ہیں، کس نے فیصلہ کیا، بند کمروں میں پلان اے بنتا ہے، پلان بی بھی بند کمروں میں بنتا ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کی دو طاقت ور ترین فوجیں 1941 میں ہٹلر اور دوسری نپولین کی تھی اور دونوں فوجیں روس کے اندر تباہ ہوگئیں کیونکہ جب وہ حملہ کر رہے تھے تو روس میں سردیاں آرہی تھیں لیکن جنرلز نے ان کو بڑا سمجھایا تھا لیکن وہ مانے نہیں حالانکہ اس وقت یوٹرن لینا چاہیے تھا اور یوٹرن جنرلز اور لیڈرز کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ کسی بھی لیڈر کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ غلطی ہوتی ہے، بہتر ہوتا ہے غلطی جان کر واپس آجائیں اور دونوں بڑی فوجیں روس میں تباہ ہوگئیں،انہوں نے کہا کہ ساری قوم اسٹبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہے کیونکہ طاقت ان کے پاس ہے، اپنی اسٹبلشمنٹ اور فوج کو بچانے کے لیے تعمیری تنقید ضروری ہے، ہمارے صحافیوں کو موقع دیا جائے، غلطی سب سے ہوتی ہیں۔عمران خان نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ جتنی تنقید مجھ پر ساڑھے 3 سال میں میڈیا نے کی کسی اور وزیراعظم پر نہیں ہوئی، میرے وزیروں کے خلاف ٹیکس چوری کی فیک نیوز چلی لیکن میں نے تو میڈیا کو کبھی پیسا نہیں کھلایا اور نہ کبھی کبھی میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے اپنے دور میں عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی، عدالتی فیصلوں کے لیے کبھی کال نہیں کی میں یہی کہتا ہوں کہ کبھی میڈیا پر ایسی بات نہ کریں جو ڈیفینڈ نہ کرسکیں۔ سینیئر صحافی عمران ریاض سمجھتے ہیں کہ ان کو زہر دیا گیا تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے،چیئرمین پی ٹی آئی نے کہاکہ شفاف انتخابات کے علاوہ پاکستان کے پاس دوسرا راستہ نہیں ہے، دوسرے راستوں میں مسئلے ہی مسئلے ہیں، ناکامی کو مسلط کریں گے تو قوم اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مزید فاصلے بڑھتے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ مارشل لا کا دور گزر چکا ہے اور جمہوریت مضبوط ہونی چاہیے۔