وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو کسی بھی مشکل صورت حال میں ہرممکن معاونت فراہم کرے گی،وزیراعظم کی وزیراعلی سندھ کو یقین دہانی
اسلام آباد (ویب نیوز)
حالیہ مون سون بارشوں کے باعث سندھ سے چترال تک موسلا دھار بارش اور سیلاب سے جاں بحق افراد کی تعداد 300سے متجاوز کرگئی ، جبکہ مختلف واقعات میں سینکڑوں افراد زخمی، ہزاروںمویشی ہلاک اور سیکڑوں ایکڑ رقبے پر پھیلی اراضی تباہ ہوگئی ہے۔ 25جولائی کو نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی(این ڈی ایم اے)کی جانب سے جاری اعداد و شمار میں بتایا گیا تھا کہ 14 جون سے 24 جولائی کی دوپہر ایک بجے تک موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ملک میں مون سون کی بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے 310 افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے جبکہ املاک کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ کراچی سمیت سندھ کے دیگر اضلاع میں مون سون بارشوں کا ہلکا اور تیز سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے، جس کی وجہ سے ایک بار پھر متعدد علاقوں میں سڑکیں زیرآب ہیں۔ وزیراعظم نے سندھ کے وزیراعلی سید مراد علی شاہ کے نام اپنے پیغام میں یقین دلایا ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کو کسی بھی مشکل صورت حال میں ہرممکن معاونت فراہم کرے گی۔ محکمہ موسمیات کے مطابق کراچی میں 30 جولائی سے ایک اور سسٹم اثر انداز ہوسکتا ہے۔ دریں اثنا وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے صوبے کے بارشوں سے متاثرہ علاقوں کو آفت زدہ علاقہ قرار دیا ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں مون سون کے تین اسپیلز کے دوران 93 افراد جاں بحق جبکہ 2ہزار 807مکانات اور 388کلومیٹر سڑکیں مکمل تباہ ہوگئیں۔ وزیراعلی مراد علی شاہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں بتایا گیا کہ مون سون سیزن کے دوران سندھ میں معمول کے مقابلے میں 369 فیصد زیادہ بارش ہوئیں۔ مراد علی شاہ کے مطابق سنگین صورت حال میں انسانی زندگیوں، انفرااسٹرکچر، فصلوں اور مکانات کے نقصانات کی تلافی کے لیے وفاقی حکومت کی مدد کی ضرورت ہے۔ کراچی، حیدر آباد، بدین، سکھر، ٹھٹہ، سجاول اور دادو جیسے شہروں میں مختلف گلیوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ صوبائی حکومت کی جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تقریبا 15 ہزار 547 مکانات کو بھی جزوی نقصان پہنچا ہے جبکہ 89 ہزار 213 ایکڑ پر کھڑی فصلیں زیرآب یا بہہ گئی ہیں۔ دریائے سندھ میں پانی سطح میں اضافے کے باعث تین روز سے سکھر اور گڈو بیراجوں میں نچلے درجے کا سیلاب برقرار ہے۔ محکمہ انہار کی جانب سے سکھر رینج کے 9 مقام کو حساس اور 15 کو انتہائی حساس قرار دے کر بندوں کی نگرانی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ سکھر بیراج کے خیرپور ایسٹ اور خیرپور ویسٹ کینال کو بند کردیا گیا ہے۔ گڈو بیراج کے گھوٹکی اور رینی کینال بھی بند کردیئے گئے۔ اطلاعات کے مطابق سکھر بیراج کی 18گھنٹے سے بجلی بھی بند، جس سے پانی ناپنے کا نظام متاثر ہوا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ بجلی بحال کرنے کیلئے کام کیا جا رہا ہے اور جلد بجلی بحال کردی جائے گی۔ خیرپور کے علاقے نوربزدار کے قریب ندی کا بند ٹوٹنے سے 100 سے زائد دیہات کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ بدستور منقطع ہے، جب کہ ہزار ایکڑ زرعی بھی ڈوب گئی ہے۔ علاقے کے متاثرین کا کہنا ہے کہ دو روز گزرنے کے بعد بھی ریسکیو آپریشن شروع نہیں کیا جاسکا۔ جب کہ سیلابی صورت حال کے باعث کھجور، کپاس، باجرے سمیت دیگر فصل زیر آب آگئی ہیں۔ ضلع ٹھٹھہ کا شہر گھارو پانی پانی ہونے سے لوگ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ کاچھو کے 400 سے زائد دیہات کا پانچویں روز بھی دادو سے رابطہ منقطع ہے، علاقہ مکین متاثرہ علاقوں میں محصور ہیں اور اشیا خوردونوش کی بھی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ آفت زدہ بلوچستان میں اس سال مون سون بارشوں سے سب سے زیادہ تباہی ہوئی ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)کے مطابق یکم جون سے اب تک بلوچستان میں موسلادھار بارشوں میں 134 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ 29 جولائی کی صبح موصول اطلاعات کے مطابق لسبیلہ میں 6، کوئٹہ میں 5 ، اور ژوب میں 2 ، کان مہتزئی میں 3 اور چاغی میں ایک شخص جاں بحق ہوا ہے۔ اس دوران مختلف حادثات میں ہزار سے زائد افراد زخمی، 11 ہزار سے زائد گھر تباہ اور 23 ہزار سے زائد مویشی بھی ہلاک ہوئے۔ نوشکی میں سیلابی پانی نے متعدد گھروں کو لپیٹ میں لے لیا۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سیلاب اور بارشوں کے باعث ہونے والے جانی اور مالی نقصان میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ڈپٹی کمشنر حب کے مطابق 29 جولائی کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حب میں بارش اور سیلاب کے باعث 12 افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ اعداد و شمار پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری تعداد سے الگ ہے۔ حب میں متاثرین کی مدد کیلئے پاک آرمی، ایدھی فانڈیشن اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ریلیف آپریش جاری ہے۔ کوئٹہ کے علاقے ہنہ اوڑک میں کچ ڈیم ٹوٹنے سے متعدد علاقے زیرآب اور سیلابی پانی سے متعدد گھر اور کچے مکانات گرگئے، جب کہ درجنوں مویشی بھی پانی میں بہہ گئے۔ قبل ازیں کوئٹہ کے ہنہ اوڑک میں دریاں اور نہروں میں طغیانی کے بعد 40 افراد کو بچایا گیا تھا ، تاہم کان مہترزئی کے علاقے میں 3 افراد ڈوب کر جاں بحق اور متعدد مکانات بہہ گئے تھے۔ انتظامیہ کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں 30 سالوں سے 500 فیصد زائد بارشیں ہوئی ہیں۔ پنجاب میں بھی مون سون کی بارشوں سے صورت حال مختلف نہیں۔ دریا چناب بپھرنے کے باعث جھنگ میں ریلے کی زید میں آنے والے 2 افراد کو بچا لیا گیا، جبکہ ایک شخص ڈوب کر جاں بحق ہوگیا۔ چنیوٹ میں بھی سیلاب کے پیش نظر ہائی الرٹ کیا گیا ہے، جہاں نشیبی علاقوں کے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ محفوظ مقام پر منتقل ہوجائیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تریموں کے مقام پر پانی کی سطح میں اضافہ ہوا، جس کے باعث آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں بڑا سیلابی ریلہ تریموں کے مقام سے گزرے گا۔ دوسری جانب ملتان مین قاسم بیلہ کے قریب متعدد بستیاں زیرآب آگئیں، جس کے بعد لوگ مال مویشی سمیت کھلے آسمان تلے بییار و مدد گار انتظامیہ کی مدد کا انتظار میں ہے، جب کہ کچھ افراد نقل مکانی کرگئے ہیں۔ موضع بیلی، اجوائن محمد پور گھوٹہ سمیت مختلف مواضعات میں سیکڑوں ایکڑ رقبے پر کاشت فصلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ دریائے چناب میں سیلاب کے خطرے کے پیش نظر گوجرانوالہ میں انتظامیہ نے ریڈ الرٹ جاری کردیا۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق اس دوران ڈھائی لاکھ سے 3 لاکھ کیوسک پانی کا ریلا گزرنے کا امکان ہے۔ مقامی آبادی کی مدد کیلئے صحت اور ریسکیو سمیت تمام اداروں کو ریلیف کیمپ لگانے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ سیالکوٹ میں ہیڈ مرالہ کے مقام پر دریائے چناب میں نچلے درجے کا سیلابی ریلہ گزر رہا ہے۔ جہاں پانی کی آمد 1 لاکھ 18 ہزار کیوسک اور اخراج 1 لاکھ 3 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ محکمہ انہار کے عملے کو الرٹ اور بندوں کی نگرانی بھی جاری ہے۔ طوفانی بارشوں نے راجن پور میں بھی تباہی مچا دی ہے، جہاں رود کوہی میں سیلابی ریلوں نے سیکڑوں دیہات ڈبو دیئے، جب کہ مختلف مقامات پر بند ٹوٹنے سے سیلابی پانی مختلف بستیوں اور گھروں میں داخل ہوگیا۔ متاثرین کی امداد کیلئے ریسکیو ٹیمیں متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مصروف ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے جاری نوٹی فیکیشن میں ضلع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فوجی دستے ڈیرہ غازی خان میں سیلاب کے باعث امدادی سرگرمیوں میں سول انتظامیہ کی مدد کر رہے ہیں۔ پاک فوج نے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ مقامی لوگوں کو طبی دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے فوج نے دو میڈیکل کیمپ قائم کیے ہیں۔ علاوہ ازیں ڈیرہ غازی خان میں منگل کی رات دیر گئے پہاڑوں سے آنے والے سیلاب کے بہا نے ایک حفاظتی بند کو توڑا جس سے 6 دیہاتی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ادھر شکر گڑھ میں حالیہ بارشوں نے تباہی مچا دی اور نشیبی علاقے زیرآب آگئے ہیں۔ نکاسی آب کے لیے بنایا گیا نالہ بھی اس دوران ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ صرف آبادی ہی نہیں بارش کا گندہ پانی قبرستان میں بھی داخل ہوگیا۔ کئی کئی فٹ جمع پانی کے باعث مرکزی شاہراہ 10 دن سے بند ہے۔ میانوالی کے مقام کوٹ بلیاں کے کچہ کے نشیبی علاقے اور مقرب والہ میں دریائے سندھ کا پانی آنے سے علاقہ زیر آب اور ڈیرہ مقرب والہ پر تقریبا250 بھیڑ بکریاں پھنس گئیں۔ ریسکیو کمانڈ اینڈ کنٹرول روم کو اطلاع ملنے پر ڈسٹرکٹ ایمرجنسی آفیسر انجنینیرنوید اقبال کی ہدایت پر واٹر ریسکیو ٹیم بمع کشتی موقع پر پہنچ گئیں جس کے بعد ریسکیو1122 کی ٹیموں نے 200بھیڑ بکریوں کو خشک مقام پر منتقل کردیا۔ دیگر مویشیوں کو بھی محفوظ اور خشک مقام پر منتقل کرنے کیلئے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں آنے والے سیلاب میں ڈوب کر جاں بحق ہونے والوں کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔ جب کہ بین الصوبائی شاہراہ انڈس ہائی وے تیسرے روز بھی بند ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک تاحال معطل ہے۔ منڈی بہاالدین، شکر گڑھ، کرتار پور، ظفر ووال گرد و نواح میں بھی سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں۔ دہمتھل میں بارش کے باعث گھرکی چھت گرگئی،2 افراد جاں بحق، جبکہ ایک بچی زخمی ہوگئی۔ جنوبی وزیرستان میں سیلابی ریلوں نے ٹانک میں تباہی مچادی، جہاں مختلف حادثات میں دوافراد جاں بحق جب کہ پانچ زخمی ہوگئے۔ سیلابی ریلوں کے باعث 3 گائوں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ دریائے کابل میں سیلاب کے باعث پانی کئی گھروں میں داخل ہوگیا۔ ریسکیو 1122 کے مطابق اس کے اہلکاروں نے پشاور میں فیز سکس، الحرم ٹان، حیات آباد، ملک سعد پل، گگہ والہ، اسمبلی ہال روڈ اور پولیس لائن روڈ سمیت مختلف مقامات میں ہیوی مشینری کے ذریعے گھروں اور پلازوں میں کھڑے پانی کو نکالا۔ ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر خطیر احمد کی جانب سے اتوار کو جاری بیان میں بتایا گیا کہ دریائے کابل کے کنارے امدادی کاروائیاں جاری ہیں اور مچنی کے قریب وزیر کلے اور پرچاوے میں ادارے نے کیمپ قائم کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریسکیو 1122 کی پانچ چھوٹی کشتیاں، تین ایمبولینسیں اور 50 اہلکار موقع پر موجود ہیں۔ چارسدہ میں بیلہ مہمندان میں ریسکیو 1122 نے کشتیوں میں بچوں اور خواتین سمیت شہریوں کو گھروں سے نکالا اور محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ ریسکیو 1122 کے مطابق نوشہرہ بھی ہائی الرٹ پر ہے اور دریا کنارے کیمپ قائم کیا گیا ہے۔ صوابی خاص میں حالیہ بارشوں میں تین فٹ تک پانی گھروں، اسکولوں، دکانوں اور مساجد میں داخل ہوگیا۔ ضلعی انتظامیہ، پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ضلعی ہیڈ کوارٹرز صوابی مال روڈ میں تباہی اور سیلاب کے مناظر ہیں۔ بار بار توجہ دلانے کے باوجود صوابی جہانگیرہ روڈ کے دونوں اطراف میں نالیاں گزشتہ دس سال سے صاف نہیں کی گیں، جبکہ سڑک کے مغربی سایڈ والی مرکزی نالی تعمیر کے بعد اب تک کھبی صاف نہیں کی گی اور یہ مکمل طور پر بند ہے۔ صوابی کے عوام نے وزیراعلی خیبر پختونخوا سے فوری نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔ چارسدہ ، مردان میں تین روز سے وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری، جس سے گرمی کا زور ٹوٹ گیا جب کہ ناقص نکاس اب کے باعث بارش کا پانی سڑکوں پر جمع ہوگیا۔ ٹانک میں جنڈولہ کے مقام پر سیلابی ریلہ سامان سے بھرا ٹرک بہا کر لے گیا۔ اپر کوہستان میں بھی مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، جہاں اچھاڑ نالہ داسو میں سیلابی پانی بڑے بڑے پتھر بہا کر لے گیا۔ ڈی سی آصف خان کے مطابق اچھاڑ نالہ کے مقام پر بند ہونے والی شاہراہِ کو رات گئے ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا، امکان ہے کہ حالیہ موسلا دھار بارشیں پہاڑوں پر کلاوڈ برسٹ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ بالائی چترال میں موسلادھار بارشوں اور سیلا ب نے ایک بار پھر تباہی مچادی، سیلابی ریلا متعدد گھروں میں داخل، کھڑی فصلوں اور باغات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مستوج و نواحی علاقوں میں گزشتہ رات سے جاری موسلادھار بارشوں کے نیتجے میں مختلف مقامات پر سیلاب آگیا، جس کے نتیجے میں غورو، پرکوسپ، کھوژ، دیوانگول ، چوئنچ ، چپاڑی و دیگر مقامات پر سیلاب نے تباہی مچادی ہے۔ سیلابی ریلہ متعدد مکانات کے اندر داخل ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ تمام جمع پونجی بارش نے خاک میں ملا دی، کھڑی فصلوں، سیب کے باغات و دیگر املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ سیلاب نے ابنوشی اور آبپاشی کے منصوبوں کو بھی نقصان پہنچایا اور رابطہ سڑکیں بھی بند ہیں۔ تاہم کسی قسم کی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔ علاقیکے مکین محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ داسو ڈیم کے قریب چائئنیز کیمپ کے مقام پر سیلاب اس شدت سے آیا کہ بارش کا پانی بھاری بھرکم پتھروں کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ گانچھے کے گائوں غور سے رائیشا دریائی کٹا کا شکار ہے، جہاں حفاظتی بند ٹوٹنے سے پانی آبادی میں داخل ہوگیا۔ اور کئی ایکڑ زرعی زمین فصلوں سمیت بہا لے گیا۔مظفرآباد آزاد کشمیرمیں شدید بارش کے باعث ندی نالوں میں تغیانی آگئی، جہاں بارش کا سلسلہ کئی روز سے جاری ہے۔ بارش اور لینڈ سلائنڈنگ سے متعدد رابطہ سڑکیں بھی بند ہیں۔ میٹ آفس کے مطابق بارش کا سلسلہ اگلے کئی روز تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ آزاد کشمیر میں وقفے وقفے سے جاری بارش کے باعث نہراپ جہلم پر قائم پل منڈا سائفن بند کا ایک بڑا حصہ گرگیا۔ جاتلاں کو منگلا سے ملانے والی مرکزی شاہراہ ہرقسم کی ٹریفک کے لیے بند کردی گئی۔