ترامیم کے تحت ریلیف کو مشروط کرنے کی درخواست پر وفاقی حکومت سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری

عدالت نے عمران خان کے وکیل کے سامنے سوالات اٹھادیئے ، بتائیں کہ ترامیم کیسے آئین سے متصادم ہیں،

نشاندہی کریں کہ عوام کے کونسے بنیادی حقوق متاثر ہوئے، کونسی ترامیم سے نیب قانون اور کیسز متاثر ہو رہے ہیں

آئین کے تحت کام کرنا عدالت کی ذمہ داری ،حلف کے تحت شفاف انداز میں کام جاری رکھیں گے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال

اگر کہیں ڈیم بن رہا ہو اور کوئی لابی اسکی مخالفت کرے وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی،

احتساب گورننس اور حکومت چلانے کیلئے بہت ضروری ہے۔چیف جسٹس و دیگر فاضل ججز کے ریمارکس

اسلام آباد (ویب نیوز)

سپریم کورٹ نے نیب قانون میں حالیہ حکومتی ترامیم سے ملنے والے ریلیف کو کیس کے فیصلے سے مشروط کرنے کی استدعا وقتی طور پرمسترد کرتے ہوئے ترامیم کے تحت ریلیف کو مشروط کرنے کی درخواست پر وفاقی حکومت سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیا ۔ عدالت نے درخواست گزار چیئر مین تحریک انصاف عمران خان کے وکیل کے سامنے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ  اپنی معروضات میں بتائیںکہ نیب قانون میں ترامیم کیسے آئین سے متصادم ہیں، نشاندہی کریں کہ عوام کے کونسے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں، کونسی ترامیم ایسی ہیں جن سے نیب قانون اور کیسز متاثر ہو رہے ہیں جبکہ چیف جسٹس عمر عطابندیال کا ریمارکس میںکہنا تھاکہ آئین کے تحت کام کرنا عدالت کی ذمہ داری ہے اپنے حلف کے تحت شفاف انداز میں کام جاری رکھیں گے۔کر پشن بنیادی طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال اور خزانے کو نقصان پہنچانا ہے،اگر کہیں ڈیم بن رہا ہو اور کوئی لابی اسکی مخالفت کرے وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، احتساب گورننس اور حکومت چلانے کیلئے بہت ضروری ہے۔ چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی فل بینچ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی جانب سے نیب قانون میں ترامیم کیخلاف دائر آئینی درخواست کی سماعت کا آغاز کیاتو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے پیش ہوکر کہا کہ وفاقی حکومت اس کیس میں کسی سینئر وکیل کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہے،انہوں نے کہاکہ بطور ایڈیشنل اٹارنی جنرل آئینی حیثیت میں عدالت کی معاونت کروں گا،اس دوران عمران خان کے وکیل خواجہ حارث پیش ہوئے تو انہیں مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھاکہ کل رات سے نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی پٹیشن پڑھ رہا ہوں،آپ  اپنی معروضات تفصیل سے پیش کریں کہ ترامیم آئین سے کیسے متصادم ہیں، نشاندہی کریں کہ عوام کے کونسے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں ، عدالت کویہ بھی بتائیں کونسی ترامیم ایسی ہیں جن سے نیب قانون اور کیسز متاثر ہو رہے ہیں، اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی نیب ترامیم کیخلاف درخواست زیر سماعت ہے، کیا مناسب نہیں ہوگا پہلے ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے دیا جائے، عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ  نیب ترامیم کا اطلاق ایک ہائیکورٹ کے دائرہ کار میں نہیں بلکہ پورے ملک پر ہوگا، نیب ترامیم کے بعد عوامی عہدیدار احتساب سے بالاتر ہوگئے ہیں، درخواستیں شاید مختلف ہائیکورٹس میں بھی آ جائیں لیکن ابھی تک کسی اور ہائیکورٹ میں درخواست نہیں آئی، خواجہ حارث نے کہاکہ احتساب کے بغیر گورننس اور جمہوریت نہیں چل سکتے حکومت نے نیب قانون میں ترامیم سے عوامی عہدیداروں کو کرپشن کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ نیب ترامیم کو چیلنج کرنے پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے۔بے نامی دار جائیدادوں کے معاملے میں کی گئی ترامیم کے حوالے سے  بھی وضاحت کریں۔اگر خواجہ صاحب آپ اپنی گزارشات کا مختصر چارٹ بنالیں تو بہتر رہے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 199 کی درخواست میں ہائیکورٹ بنیادی حقوق سے آگے نہیں جا سکتی۔بہتر رہے گا کہ معاملہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ آجائے توہائیکورٹ کی دانشمندی (وزڈم) بھی سامنے آجائے گی۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ اگر حکومت نیب قانون ختم کر دیتی تو آپکی درخواست کی بنیاد کیا ہوتی؟  وکیل پی ٹی آئی  کا کہنا تھاکہ اسلام اور آئین دونوں میں احتساب پر زور دیا گیا ہے،  عدلیہ کی آزادی اور عوامی عہدیداروں کا احتساب آئین کی بنیادی جزو ہیں، جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا عدالت ختم کیا گیا نیب قانون بحال کر سکتی ہے؟چیف جسٹس عمر عطابندیال نے خواجہ حارث سے کہاکہ آپ آئین کی اسلامی دفعات کا حوالہ دے رہے ہیں،آپکے مطابق اگر احتساب ختم ہوجائے چیک اینڈ بیلنس ہونا جمہوریت کیلئے بہت ضروری ہے، کرپشن یہ ہے کہ آپ غیر قانونی کام کریں اور اس سے کسی کو فائدہ پہنچائیں، کرپشن بنیادی طور پر اختیارات کا ناجائز استعمال اور خزانے کو نقصان پہنچانا ہے،اگر کہیں ڈیم بن رہا ہو اور کوئی لابی اسکی مخالفت کرے وہ قومی اثاثے و بنیادی حقوق کی مخالفت ہوگی، سپریم کورٹ کے سابق فاضل جج جسٹس مظہر عالم کہتے رہے ڈی آئی خان کو ڈیم کی ضرورت ہے،احتساب گورننس اور حکومت چلانے کیلئے بہت ضروری ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ ہمارا کام یہ نہیں کہ آپکو درخواست مزید سخت بنانے کا کہیں،  آپ کا کام ہے ہمیں بتانا کہ کونسی ترمیم کس طرح بنیادی حقوق اور آئین سے متصادم ہے، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ کوئی ترمیم اگر مخصوص ملزمان کو فائدہ پہنچانے کیلئے ہے تو وہ بتائیں، کیا آپ چاہتے ہیں عدالت پارلیمنٹ کو قانون میں بہتری کا کہے، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جو ترامیم آئین سے متصادم ہیں انہیں کالعدم قرار دیا جائے،خواجہ حارث کی اس دلیل پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا یہ دلائل قابل قبول ہے کہ کوئی قانون پارلیمانی جمہوریت کیخلاف ہونے پر کالعدم کیا جائے؟  آپ نے درخواست میں لکھا ہے کہ ترامیم پارلیمانی جمہوریت کے منافی ہیں،کئی ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے برعکس کے ہیں،آپ بتائیں کہ کونسی ترمیم آئین کے خلاف ہے۔خواجہ حارث ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ بنیادی ڈھانچے کیخلاف آئینی ترمیم بھی ممکن نہیں، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے،عوام تو پورا آئین تبدیل کرسکتے ہیں  پارلیمان کا اختیار ہے کہ مکمل آئین بھی تبدیل کر سکتی ہے، خواجہ حارث نے کہاکہ سپریم کورٹ آئینی ترامیم کیس میں بنیادی ڈھانچے کو تسلیم کر چکی ہے۔مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی آئین کے تحت بنیادی حق ہے، کیا مفت تعلیم کا حق آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے؟   خواجہ حارث نے سوال اٹھایا کہ پارلیمان اگر سزائے موت ختم کر دے تو کیا وہ چیلنج نہیں ہو سکتی؟اس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے جواب دیا کہ سزائے موت پارلیمان ختم کر دے تو ہم کیسے بحال کر سکیں گے؟پارلیمنٹ ہی کچھ کرسکتی ہے۔ خواجہ حارث نے کہاکہ سزائے موت ختم ہوئی تو پہلے شریعت کورٹ میں چیلنج ہوگی، اس دوران چیف جسٹس نے  سوال اٹھا یا کہ کیا آزاد عدلیہ کاذکرآئین کے بنیادی حقوق کے باب میں ہے تو خواجہ حارث نے منفی میں جواب دیا اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ  عدلیہ کی آزادی اس لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی اورتوازن برقرار رہ سکے، قانونی تحفظ ہر شخص کا بنیادی حق ہے آئین کے آرٹیکل 4 پر کبھی تفصیل سے بحث نہیں ہوئی لیکن یہ بہت اہم ہے، چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ بنیادی حقوق معطل ہو سکتے ہیں لیکن آرٹیکل 4 نہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے حامد خان سے کہاکہ اس کیس میں اگر آپ کا انحصار اسلام پر ہے تو نیب ترامیم شریعت کورٹ میں کیوں نہیں چیلنج کرتے؟ خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہاکہ  جن اسلامی دفعات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ آئین میں درج ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ بینچ کے رکن فاضل ججز نے کیس کی بھر پور تیاری کرتے ہوئے پرانے نیب قانون اور نئی ترامیم کے موازنے کیلئے چارٹ بنائے ہوئے ہیں،خواجہ حارث نے کہاکہ نئی نیب ترامیم کا بھی 1985 سے نفاذ کردیا گیا۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھاکہ آپ کہہ رہے ہیں اس ترمیم سے تمام زیر التوا مقدمات انکوائریز پر فرق پڑتا ہے۔جن ملزمان کو سزا ہو چکی ہے ان پر ترامیم کا کیا اثر پڑے گا؟ خواجہ حارث ایڈووکیٹ کا کہنا تھاکہ تمام عدالتی فیصلے ختم ہوچکے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ہر ترمیم کے پیچھے کوئی نہ کوئی عدالتی فیصلہ نظر آ رہا ہے، شواہد کے بغیر کارروائی پر تو کوئی بھی بیوروکریٹ فیصلے نہیں کرپا رہا تھافیصلہ سازی رک گئی تھی، یہ طے شدہ قانو ن کے کہ پہلے استغاثہ اپنا کیس بنائے گا پھر دفاع آئے گا، خواجہ حارث نے کہاکہ شواہد کے حوالے سے جو عدالتی فیصلے تھے وہ پہلے ہی قانون کا حصہ بن چکے،چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ جن ترامیم پر اعتراض ہے آج انکی نشاندہی کریں، آئندہ سماعت پر بحث ہوگی، خواجہ حارث نے جواب دیا کہ بیرون ملک سے قانونی امداد لینے کے حوالے سے میوچل لیگل اسسٹنس کی شق ختم کردی گئی ہے ، رضاکارانہ واپسی اور عودہ معاف بننے کے حوالے سے شق بھی تبدیل کردی گئی، جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھاکہ سپریم کورٹ کادائرہ کارتب شروع ہوگا جب کوئی غیر آئینی معاملہ ہوگا اگر حکومت کوئی معاہدہ کرلے تو کیا پارلیمان اس معاہدے کے مطابق قانون سازی کی پابند ہے؟ آپ چاہتے ہیں مفروضے پر کارروائی کا اختیار نیب کو واپس مل جائے؟ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ ترامیم کے بعد اب کوئی پوچھ نہیں سکتا کہ اثاثے کہاں سے بنائے؟ سوال پوچھے بغیر کیسے علم ہوگا کہ اثاثوں کے ذرائع کیا ہیں۔ ان ترامیم سے قومی و بین الاقوامی معاہدوں کو نظر انداز کردیاگیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ ابھی تک تو ایسا نہیں ہے یہ آپکا تاثر لگ رہا ہے لیکن ثابت نہیں ہوتا کہ ایسا ہے ، لیکن بیرون ملک سے شواہد لانے کے حوالے سے کچھ رکاوٹ آگئی ہے تاہم اگلی سماعت پر آپ عدالت کو بتائیں کہ کس طرح نیب قانون میں ترامیم زیر سماعت مقدمات کومتاثرکررہی ہیں، بند ہوچکے مقدمات کو دوبارہ کھولنا اتنا آسان نہیں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس قانون پر عملدرآمد کے حوالے سے درخواستیں نہیں دی جاسکتیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ ایسا تو نہیں ہوگا ایک ثبوت پیش ہو چکا ہے اور واپس ہوجائے۔ٹرائل میں ایک ثبوت آ گیا تو یہ نہیں کہا جا سکتا باہر سے دوبارہ ثبوت لائیں۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اگر ایسا ہوجائے تو مجھے کیا اعتراض ہے۔نیب قانون میں ترمیم کی ذریعے ملزم کو اثاثے ٹرانسفر کرنے کا اختیار دیدیا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پہلے تو نیب ملزم کے اثاثے عدالت سے منجمد کرا دیتا تھا۔خواجہ حارث نے کہاکہ اب قانونی اجازت کو ترامیم سے نیب قانون سے حذف کردیا گیا۔ عمران خان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ ترامیم کے تحت ریلیف کو درخواست پرسپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کیا جائے،اس پر چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ریلیف کے حوالے سے کوئی بہت ایمرجنسی ہے اس حوالے سے بتائیں، یہ بھی بتائیں کیا بہت زیادہ زیر التوا مقدمات ترامیم سے متاثر ہونگے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ وہ عدالت سے حکم امتناع نہیں مانگ رہے لیکن ترامیم کے تحت ملنے والا ریلیف مشروط کیا جائے۔ عدالت نے ریلیف کو کیس کے فیصلے سے مشروط کرنے کی استدعا وقتی طور پرمسترد کرتے ہوئے ترامیم کے تحت ریلیف کو مشروط کرنے کی درخواست پر وفاقی حکومت سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیا ۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ آئین کے تحت عدالت نے اپنا کام کرنا ہے،  اپنے حلف کے تحت شفاف انداز میں کام جاری رکھیں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ جمعہ پرامن دن ہوتا ہے اس لئے آئندہ جمعہ کو دوبارہ سماعت کرینگے،  عام دنوں میں تو شام کو بھی کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے، چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ میں کہنا تھا کہ  ہم رات نو بجے تک بیٹھتے ہیں کبھی آپکو بھی زحمت دینگے۔ عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ جمعہ کے روز تک ملتوی کردی ہے۔